ایک عورت ہونے کے ناطے بشریٰ بی بی سے ہمدردی کا عنصرہمیشہ موجود رہا۔ اُس کے بارے میں جادوٹونے، رشوت لے کر پنجاب میں ٹرانسفر پوسٹنگ اور تحائف جیسی خبریں سُن سُن کرکان پَک گئے لیکن پھربھی اِن خبروں پر ہمارا یقین متذلزل ہی رہا۔ اب جبکہ عدالت نے ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ بشریٰ بی بی کو 14سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی ہے تو سَر شرم سے جھُک گیا اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا ایک خاتون کا اتنا کریہہ کردار بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی دھرتی ماں کو ہی لوٹنے پر تُل جائے۔ پاکستان میں کرپشن سے مفر ممکن نہیں لیکن ایسی کرپشن کبھی دیکھی نہ سُنی جس سے بشریٰ بی بی نے ہاتھ رنگے۔ رسمِ دنیا یہی کہ تحفہ ایک یادگار ہوتاہے جسے ہمیشہ سینت سنبھال کر رکھا جاتا ہے، بیچنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں مگر معاملہ اُلٹ کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبِن سلیمان نے خاتونِ اوّل پاکستان (بشریٰ بی بی) کو 3 ارب17 کروڑ سے زائد قیمت کے جیولری سیٹ کاتحفہ دیا۔ بین الاقوامی اصول یہ کہ دوسرے ملک سے حاصل کیے گئے تحائف کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتاہے اور اگر تحفہ وصول کرنے والے کو وہ تحفہ پسند آجائے تو کمیٹی مارکیٹ ریٹ پر اُس کی قیمت مقرر کرتی ہے اور ایک مخصوص رقم اداکرکے تحفہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ اِس میں بھی یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ وہ تحفہ فروخت نہیں کیاجا سکتا۔ بشریٰ بی بی نے وہ جیولری سیٹ صرف 90لاکھ روپے اداکرکے وصول کر لیا۔ یہی نہیں اُن کے شوہرِ نامدار نے ایم بی ایس سے وصول کردہ خانہ کعبہ کے ڈائل والی گھڑی نہ صرف وصول کی بلکہ یہ تحائف بیچ بھی دیئے۔ دونوں میاں بیوی نے توشہ خانہ پر یوں ہاتھ صاف کیا کہ 108تحائف اُٹھا کرلے گئے۔ اِس جرم کی پاداش میں اُن دونوں کو 14,14سال قیدبامشقت اور ایک ارب 58کروڑ روپے جرمانہ بھی ہوا۔ ایک سربراہِ مملکت اور خاتونِ اول کی اِن حرکات پر جو جَگ ہنسائی ہورہی ہے اُس کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔
بشریٰ بی بی اور عمران خاں کے خلاف ابھی عدت میں نکاح، 190ملین پاؤنڈز اور القادر یونیورسٹی جیسے اوپن اینڈ شَٹ کیسز باقی ہیں۔ یہ کیسز تیزی سے حتمی فیصلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سوال مگریہ ہے کہ جب بشریٰ بی بی کو جیل میں خواتین کی بیرک میں رکھا جاسکتا تھا تو پھر بنی گالا جیسے پُرتعیش محل کو اُس کے لیے سَب جیل کیوں قرار دیا گیا؟۔ 3بار منتخب وزیرِاعظم رہنے والے میاں نوازشریف کی بیٹی اور معروف صنعت کار میاں محمدشریف کی پوتی مریم نواز کے لیے تو جیل کی کال کوٹھری اور بطور مشقت جیل کے بچوں کو پڑھانے پر مامور لیکن بشریٰ بی بی کے لیے پُرتعیش محل۔ کیا اُسے جاتی اُمرا میں نظربند نہیں کیاجا سکتا تھا؟۔ سابق صدرِمملکت آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو تو ہسپتال کے بسترسے گھسیٹ کر جیل میں بند کیا جاتاہے لیکن بشریٰ بی بی پر عنایتِ خسروانہ۔ اِس دوعملی کا آج نہیں توکل اربابِ اختیار کو بہرحال جواب تودینا ہوگا۔
کیا یہی اسلامی جمہوریہ ہے جس میں عدل کا پلڑا طاقتور کی طرف جھُک جاتا ہے؟۔ تحریکِ انصاف کی کئی خواتین عمران خاں کے بہکاوے میں آکر جیلوں میں سَڑرہی ہیں۔ بُشریٰ بی بی سے کہیں عمر رسیدہ یاسمین راشد بھی جیل میں ہے حالانکہ وہ کینسر کی مریضہ ہے۔ خدیجہ شاہ چونکہ اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھی اِس لیے اُسے رہائی مل گئی لیکن متوسط گھرانوں کی صنم جاوید اور عالیہ حمزہ اب بھی جیل میں ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی سانحہ 9مئی میں ملوث تحریکِ انصاف کی کئی خواتین اب بھی جیلوں میں ہیں لیکن اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہ دادرسی کرنے والا۔ بشریٰ بی بی البتہ اپنے ہی گھر میں ہے، سزا تو اُسے بامشقت ہوئی۔ اب بنی گالا میں اُس سے مشقت کون لے گا اور کیسے؟۔ یہ بھی شاید پاکستان کی تاریخِ عدل کا پہلا واقعہ ہے کہ 14سال قیدِ بامشقت پانے والی مجرمہ کو اُس کے اپنے گھر میں ہی نظربند کر دیاگیا۔ قولِ امیرالمومنین حضرت عمرؓ یاد آیاکہ اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھُک جائے تو پھر قیصروکسریٰ کی بادشاہتوں اور اسلامی حکومت میں کیافرق ہوا؟۔ جج محمد بشیر نے تو اپنا فرض اداکردیا
پھر پتہ نہیں کیا ہواکہ اربابِ اختیار نے بشریٰ بی بی کا جیل میں رہنا پسند نہ کیا۔ احتساب عدالت کا جج محمدبشیر وہی ہے جس نے میاں نوازشریف کو پاناماکیس میں 10سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تب تو عمران خاں اور اُس کے پیروکاروں نے مٹھائیاں بانٹیں اور بغلیں بجائیں لیکن اب وہی جج بُرا کیسے ہوگیا جبکہ عمران خاں نے خود اُسے بطور احتساب عدالت جج 3سال کی ایکسٹینشن دی۔ کیا تحریکِ انصاف کے لینے کے پیمانے اور دینے کے پیمانے اور ہیں؟۔ کیا یہی وہ ریاستِ مدینہ ہے جس کا عمران خاں گلی گلی میں شور مچاتے پھرتے تھے؟۔ کیا یہی وہ نیا پاکستان ہے جس کے سہانے سپنے دکھائے گئے تھے؟۔
حقیقت یہی کہ عمران خاں کی ساری سیاست کا محور لڑائی جھگڑا، فساد، بَدزبانی اور بَدکلامی رہاہے۔ اپنی نرگسیت کے زیرِاثربیگانے تو بیگانے اپنے بھی اُن سے نالاں تھے۔ اُن کی فطرت یہی کہ متحارب کو ہمیشہ کے لیے نیست ونابود کردو۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے دَورمیں جلاؤ گھراؤ، مارو مَرجاؤ جیسی سیاست نے جنم لیا۔ پوری قوم نے ایسی سیاست کا نظارہ ایک توڈی چوک اسلام آباد کے 126روزہ دھرنے میں کیااور پھر حکومت سے نکالے جانے کے بعد اُن کے جلسے جلوسوں میں جوکچھ ہواوہ تاریخ کا حصّہ۔ 9مئی کا سانحہ ایساکہ جس کی نظیر پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایساتو کوئی دشمن بھی نہیں کرتا جیسا اپنوں نے کیا۔ بلاشبہ یہ بغاوت تھی، ناکام بغاوت جس کے ماسٹرمائنڈ کا طے ہونا ابھی باقی ہے۔ اطلاعات تویہی کہ عمران خاں ہی اِس ناکام بغاوت کا ماسٹرمائنڈ ہے لیکن چونکہ یہ طے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے اِس لیے ہماراقلم خاموش۔
اب جبکہ 8فروری 2024ء کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں تو یہ ہم پاکستانیوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے ووٹ کا حق سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ یاد رکھیں کہ ہم نے ذات برادری اور سیاسی جماعت سے بالاتر ہوکر صرف اُسی نمائندے کوووٹ دینا ہے جو اپنی ذات کانہیں پاکستان کا سوچے۔ اِس وقت وطنِ عزیز دَورِابتلاء میں ہے لیکن اُمید کا دامن تھامے رکھیں۔ رَبِ لم یزل نے زمین کے اِس ٹکڑے کو اپنی ساری نعمتوں سے مالامال کررکھا ہے۔ ضرورت ہے تو اِس امرکی کہ ہم صرف وہ نمائندے منتخب کریں جن کے دل میں ملک وقوم کی بہتری کا دردہو اور یہ سب کچھ آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اب ہمیں 8فروری کو اپنے مقدر کا انتخاب کرناہے۔ یاد رکھیے کہ اگر ہم سے چُوک ہوگئی تو پھر رَبِ کائینات کے فرمان کے مطابق ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی“ (سورۃ الرعدآیت 11)۔