پاکستان میں ویسے تو ہر محنت کرنے والا طبقہ اس وقت غربت کی بلندیوں پر ہے لیکن ان میں سے بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو ہمیں سردیوں کی سرد راتوں میں مچھلی فراہم کرتا ہے آج میں اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کی بات کرونگا ویسے بھی 21نومبر کو انکا عالمی دن بھی ہوتا ہے جن سے اکثر مچھیرے بے خبر رہتے ہیں پاکستان میں ماہی گیر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور انکی کل آبادی میں سے79 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے 90 فیصد ماہی گیر بے گھر اور ان میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ساحلی پٹی کے ساتھ مقیم ماہی گیرکمیونٹیز شدید مشکلات کا شکار جہاں سکول اور نہ ہی ہسپتال ہیں بلکہ انہیں مزدور کا درجہ بھی حاصل نہیں یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو سیکورٹی ہے نہ انشورنس اور تو اور بینک اور قرض کی سہولیات تک رسائی سے بھی محروم اس مظلوم طبقے کاکوئی پرسان حال نہیں یہ لوگ مچھلی پکڑتے پکڑتے اکثر اپنی سمندری حدود بھی غلطی سے پار کرجاتے ہیں اور پھر کئی کئی سال دوسرے ممالک کی جیلوں میں گذار دیتے ہیں ان پر ہونے والے مظالم پر حکومت نے بھی چپ سادھ رکھی ہے حالانکہ ماہی گیری پاکستان کے لیے بھاری زرمبادلہ کمانے والا ایک منافع بخش پیشہ ہے تاہم ملک کی ساحلی پٹی کے ساتھ رہنے والی ماہی گیری کی کمیونٹیز زیادہ تر شدید مشکلات کا شکار ہیں اورایشیائی ترقیاتی بینک نے 79 فیصد آبادی کو غریب قرار دیا ہے اور ان میں سے بھی 54 فیصد غریب ترین طبقے میں آتے ہیں ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھنے والے تقریبا 90 فیصد باشندے بغیر کسی سہولت کے بکھری ہوئی بستیوں میں سرکنڈے کی جھاڑیوں میں رہتے ہیں وسائل اور خدمات کی کمی کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور بچوں پر پڑتا ہے جہاں اوسط خواندگی کی شرح مردوں کے لیے 47فیصداور خواتین کے لیے 14فیصدریکارڈ کی گئی ماہی گیری کے شعبے کی ترقی ہنر مند افراد کے بغیر ممکن نہیں یہ لوگ پاکستان کے لیے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں لیکن حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے یہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں خواندگی، تربیت، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان افراد تک براہ راست رسائی حاصل کرے کیونکہ ماہی گیر برادریوں کی معیشت اور معاش کا براہ راست تعلق ان کے ماحول سے ہے اس وقت وزیر اعظم کا تعلق بلوچستان سے ہے اور چیئرمین سینٹ کا تعلق بھی اسی صوبہ سے ہے لیکن اسی صوبہ میں غربت بھی سب سے زیادہ ہے اور ماہی گیر تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں ان کا رہن سہن دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ لوگ آج کے جدید دور میں رہ رہے ہیں ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم زمانہ قدیم میں آگئے ہیں موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے سب سے پسماندہ ترین علاقوں کے غریب ماہی گیروں کی حالت پر فوری توجہ دیں خاص کر مینگروو کی دلدل، کریک اور فش فارمنگ کے علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں سب سے پہلے ان کمیونٹیز کو صحت کی حفاظت اور انشورنس فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ ان کی سرگرمیاں بہت سخت اور تھکا دینے والی ہیں وہ سانپ کے کاٹنے، مچھلی کے کاٹنے اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کے پینل پر کوئی ہسپتال نہیں ہے اور انہیں علاج کے لیے بھی دور دراز کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے اور پیسے بھی اپنی جیب سے لگانے پڑتے ہیں جبکہ ان کی کمائی بھی بہت کم ہوتی ہے ایک اور بات کہ ماہی گیروں کی ہمارے ہاں کوئی پہچان بھی نہیں ہے انہیں کسانوں یا مزدوروں کے برابر حقوق ملنے چاہیے تاکہ وہ بھی حکومتی سکمیوں سے فائدہ اٹھا سکیں بلوچستان حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ایک پالیسی منظور کی ہے کہ ماہی گیروں کو مزدور سمجھا جائے تاہم پالیسی صرف ایک دستاویز ہے جس پر عمل درآمد کاابھی تک ماہی گیروں کو انتظار ہے ماہی گیروں کے حوالہ سے ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اب ان لوگوں کو مچھلیاں تلاش کرنے کے لیے گہرے سمندر میں جانا پڑتا ہے مچھلیوں کے کم ہوتے ذخیرے نے ان کی زندگی کو بدتر بنا دیا ہے کیونکہ انکا خوراک اور آمدنی کے لیے مچھلیوں پر منحصر ہیں اور ان کے پاس مچھلیاں پکڑنے کے کوئی جدید آلات بھی نہیں ہیں ماہی گیر سمندری خوراک کی برآمد کے ذریعے ملک کو زرمبادلہ کمانے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ برآمدات میں اضافہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کی اپنی زندگیوں میں بہتری نہیں آرہی اور انہیں ان کی کوششوں کے مطابق منافع نہیں ملتاان لوگوں میں تربیت یافتہ اور ہنر مند پیشہ ور افراد کی بڑی کمی ہے اور حکومت انکی یہ کمی دور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کررہی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس حوالہ سے محکمے اور وزارت بھی کام کررہی ہے اور اسکے باوجود ماہی گیروں کا یہ طبقہ دن بدن مقروض اور بدحال ہوتا جارہا ہے حکومت کو ملکی بحری سرگرمیوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہنر مند پیشہ ور افراد کو تربیت اور تیار کرنے کی ضرورت ہے زیادہ تر ماہی گیر بینک اور قرض کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں مائیکرو فنانس اداروں کی طرف سے فراہم کردہ کریڈٹ سہولیات کے ذریعے ان کی ترقی کے مواقع کو بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میں ساحلی کمیونٹیز نے مائیکرو فنانس سہولیات تک رسائی کے ذریعے نمایاں طور پر فائدہ اٹھایا ہے جس سے ان کے اثاثوں اور آمدنی میں اضافہ ہوا ہے ماہی گیروں کی مدد کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے کامیاب پاکستان پروگرام شروع کیا یہ پروگرام افراد کو مائیکرو قرضے کی پیشکش کرتا تھاجسکی بدولت بینک ایسے مائیکرو فنانس اداروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں جو بینک سے محروم کمیونٹیز کو قرض دیتے تھے لیکن اب وہ بھی بند ہوچکے ہیں ماہی گیروں کو حکومت گھر اور مچھلی پکڑنے کا جدید سامان فراہم کرے تو یہی طبقہ پاکستان کا خوشحال طبقہ بن سکتا ہے جبکہ سمندری مچھلی سے پاکستان کے لوگ بھی لطف اندوز ہوسکیں گے حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر کے ماہی گیروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام فورا شروع کیے جائیں تاکہ یہ لوگ بھی ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں جبکہ پاکستان معیار کو بڑھا کر عالمی مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ سے اپنا منافع حاصل کر سکتا ہے آبی زراعت کی پیداوار اس شعبے کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان مچھلی اور دیگر سمندری غذا کی مصنوعات کی پیداوار اور پروسیسنگ میں چینی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ماہی گیری کی صنعت میں بہتری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، آمدنی میں اضافہ ہوگا اور سماجی و اقتصادی ترقی میں مجموعی طور پر ترقی ہوگی ماہی گیری کی معیاری مصنوعات کو پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ دونوں شکلوں میں برآمد کیا جا سکے عام طور پر چار قسم کے عملی فش کلچر کے نظام ہوتے ہیں جن میں پنجرے، کھلے تالاب، دوبارہ گردش کرنے والے نظام اور ریس ویزشامل ہیں جنہیں تجارتی کھیتی کے کامیاب نظاموں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے 2022 میں مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ کی مالیت 110 بلین ڈالر تھی جبکہ2032 کے اختتام تک 3.6 فیصد کی کمپانڈ اینول گروتھ ریٹ حاصل کرنے کا امکان ہے پاکستان اپنے معیار کو بڑھا کر عالمی مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ سے اپنا منافع حاصل کر سکتا ہے۔