کدھر جا رہے ہیں ہم؟
لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خاں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل پی ڈی ایم کے لیے ایک ایسا شاٹ ہے جس کی گونج اُنہیں صدیوں تک سنائی دے گی۔ اُنہوں نے کہا ”میرے پاس ابھی بہت سے ایسے کارڈز باقی ہیں جن کو کھیلوں گا تو اِن کے ہوش اُڑ جائیں گے۔ اگر ملک میں شفاف انتخابات نہ ہوئے تو سری لنکا جیسی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کے بارے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ وہ ساری تباہی کا ذمہ دار ہے“۔ گزشتہ 9ماہ سے عمران خاں کے مُنہ سے دھرتی ماں کے لیے ایک بھی کلمہئ خیر نہیں نکلا۔ کبھی سری لنکا کی مثالیں، کبھی دیوالیہ ہونے کے ڈراوے، کبھی پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے کی باتیں تو کبھی ایٹم بم سے دھرتی ماں کو اُڑا دینے جیسے منحوس کلمات۔ اِس کے باوجود بھی ایک قابلِ ذکر تعداد عمران خاں کی پیروکار۔ حقیقت یہ کہ گزشتہ 7 عشروں سے ٹھوکریں کھاتی قوم کسی ایسے رَہنما کی تلاش میں جو اُس کی ڈوبتی نیّا کو کنارے لگا سکے۔ کنارہ تو تاحال نصیب نہیں ہوا البتہ مایوسیوں کا یہ عالم کہ
اِک عمر سے فریبِ سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نہیں کہ کدھر جا رہے ہیں ہم
عمران خاں کا مطمح نظر ملک وقوم کی فلاح ہرگز نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمنٹ اقتدار کا ہُما اُن کے سر پر بٹھا دے۔ سوال مگر یہ کہ اگر اُنہیں دوبارہ وزیرِاعظم بنا دیا جائے تو اُن کے پاس کون سی ایسی گیدڑسنگھی ہے جس سے وہ پاکستان کی ڈوبتی نیّا کو پار لگا دیں گے۔ 3 سال 7 ماہ اور 21 دنوں میں اُنہوں نے پاکستان کا جو حشر کیا وہ سبھی کو معلوم۔ اِس عرصے میں اسٹیبلشمنٹ پرتنقید وتعریض کے جو تیر برسائے گئے وہ بھی تاریخ کا حصّہ۔ سبھی جانتے ہیں کہ عدلیہ اور فوج ایسے بُت تھے جن پر اُنگلیاں اُٹھانا ناممکن تھا لیکن اِس دَور میں انگلیاں بھی اُٹھیں، زبانیں بھی کھُلیں اور قلم بھی رواں
ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج نے غیرجانبدار ہونے میں ہی عافیت جانی۔ پاکستان کو 21 ہزار ارب روپے قرضے میں ڈبونے والے عمران خاں اور اُن کی سرپرست اسٹیبلشمنٹ کی پٹاری میں کوئی ایک منصوبہ بھی ایسا نہیں تھا جسے وہ عوام کے سامنے لا کر اپنی کارکردگی کا ڈھول پیٹ سکیں۔ اب عمران خاں اسٹیبلشمنٹ کو موردِالزام ٹھہرا رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ عمران خاں کو۔ اسٹیبلشمنٹ کی کرپشن تو فی الحال کہیں نظر نہیں آرہی البتہ عمران خاں کی اربوں کی کرپشن کی کہانیاں زباں زَدِعام۔ اب خاں صاحب معاشی تباہی کا ذمہ دار اسحاق ڈار کو قرار دے رہے ہیں لیکن اُنہیں تو اتحادی حکومت نے ستمبر 2022ء کے آخر میں وزارتِ خزانہ کا قلم دان سونپا تھا جبکہ عمران خاں نے اپنے ساڑھے 3سال سے زائد دَور میں 3 وزرائے خزانہ تبدیل کیے اور سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا۔ اِس کے باوجود بھی معیشت کی نیّا ڈوبتی چلی گئی۔ جہاں تک عمران خاں کے شاٹ کھیلنے اور اپنی پٹاری سے کارڈ نکالنے کی بات ہے فی الحال تو ہوش اُنہی کے اُڑے ہوئے ہیں اور اُنہوں نے گزشتہ 9 ماہ میں جتنے شاٹ کھیلے، پلٹ کر اُنہی کے سَر پر لگے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار اپنا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں، کبھی سونامی، کبھی نیا پاکستان، کبھی ریاستِ مدینہ، کبھی امریکی غلامی نامنظور، کبھی امر بالمعروف اور اب ”حقیقی آزادی“۔
حیرت ہے کہ وہ کون سا ایسا جادو ہے جو عمران خاں کے پیروکاروں کے سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کیا اُنہیں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ وہ نِت نئے سورج اپنا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں؟۔ کیا اُنہیں خاں صاحب کے بے شمار یوٹرن اور جھوٹے وعدے بھی یاد نہیں؟۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس وقت ملکی معیشت کا بُرا حال ہے اور مہنگائی نے جینا دوبھر کر رکھا ہے لیکن کیا یہ قرینِ انصاف ہوگا کہ 9 ماہ کی اتحادی حکومت کو موردِالزام ٹھہرایا جائے اور ساڑھے 3 سالہ دَورِ حکومت سے صرفِ نظر کیا جائے؟۔ ہمارا کسی حکومت یا سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں لیکن دھرتی ماں سے تعلق تو ہے۔ جب عمران خاں تین ٹکڑوں، دیوالیہ اور سری لنکا بن جانے کی بات کرتے ہیں تو بہرحال وطن سے محبت کرنے والوں کو تکلیف تو ہوتی ہے۔
ہمیں یقین کہ ان شاء اللہ پاکستان کبھی بھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ وجہ صرف ہمارا حُسنِ ظَن نہیں بلکہ جب بین الاقوامی حالات پہ نظر دوڑاتے ہیں تو دِل کو کچھ تسلی ضرور ہوتی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان پر قرضوں کا مجموعی حجم 9.2 کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ یہ قرضہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے لیکن کبھی ڈیفالٹ کی بات نہیں ہوئی۔ امریکہ کے قرضوں کا مجموعی حجم 31 کھرب ڈالر ہے۔ بائیڈن حکومت نے قرض لینے کی آخری حد بھی پھلانگ لی ہے اور سٹاک مارکیٹ کریش کر رہی ہے۔ پھر بھی ڈیفالٹ کا شور مچانے کی بجائے سیاسی جماعتیں سَر جوڑ کر بیٹھی ہیں اور غیرمعمولی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ یہی حال برطانیہ کا ہے جہاں نئے ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں، بسوں اور ٹرینوں کے کرایوں میں ریکارڈ اضافہ کر دیا گیا ہے، ملازمین اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں مگرکسی کی زبان پر ڈیفالٹ کرنے جیسا منحوس لفظ نہیں آتا۔ مصر میں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہے کہ بدترین معاشی صورتِ حال کے باعث کھانے پینے کی اشیاء خریدنا عام لوگوں کے بَس میں نہیں رہا۔ اب حکومت نے عوام کو مرغوں کے پنجے تک کھانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ افریقہ کے 54 ممالک عالمی معاشی بحران کی زَد میں ہیں اور اُنہیں گزشتہ 10 برسوں کی بدترین مہنگائی کا سامنا ہے لیکن پھر بھی اُن کی معیشت مستحکم ہے۔ وجہ صرف ایک کہ اِن ممالک کی سبھی سیاسی جماعتیں باہم مل کر اِس عالمی معاشی بحران کا مقابلہ کر رہی ہیں جبکہ پاکستان میں اِس کے باوجود کہ اتحادی حکومت بار بار تحریکِ انصاف کو معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے باہم مِل بیٹھنے کی دعوت دے رہی ہے لیکن عمران خاں کو کسی سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں۔ شاید وہ ملک کو واقعی دیوالیہ کرنے کے ایجنڈے پر ہیں۔ ایسا ہم 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد میں عمران خاں کے 126 روزہ دھرنے میں دیکھ چکے ہیں۔ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ عمران خاں کی پُشت پر تھا۔ اِس کے باوجود بھی وہ 126 دنوں کے بعد سانحہ اے پی ایس پشاور کا بہانہ بنا کر بے نیل ومرام لوٹے۔ اِس دھرنے کے دوران اُنہوں نے سول نافرمانی کا
اعلان کیا، یوٹیلٹی بِل سرِعام جلائے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے اور بیرونی ممالک میں بسنے والے پاکستانی شہریوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی۔ اگر اُس وقت کے حکمران عمران خاں کی اِن غیرآئینی حرکات پر ایکشن لے لیتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی لیکن تب تو اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا حکمرانوں کے سر پر تھا۔
اب بھی عمران خاں کا ایجنڈا ملک کو ڈیفالٹ تک لے جانے کا ہے۔ اُنہیں کسی صورت بھی گوارا نہیں کہ اتحادی حکومت معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اُدھر جنیوا کانفرنس میں اقوامِ عالم نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے 10 ارب 57 کروڑ ڈالر ز امداد کا اعلان کیا اور اِدھر عمران خاں نے پہلے پنجاب اسمبلی اور پھر خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کروا کر انتشار کو ہَوا دی۔ یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے اپنا تھوکا چاٹتے ہوئے پارلیمنٹ میں جانے کا عندیہ بھی دے دیا اور اپوزیشن لیڈر، پارلیمانی لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عُہدے بھی مانگ لیے۔ اُدھر اتحادی حکومت نے پہلی بار نہلے پہ دہلہ مارتے ہوئے 2 قسطوں میں تحریکِ انصاف کے 70 ارکانِ اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے۔ تحریکِ انصاف کے کارپردازان کا خیال تو یہی تھا کہ جس طرح 2014ء کے دھرنے میں اُن کے استعفے منظور نہیں کیے گئے تھے اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اِسی لیے وہ بار بار استعفوں کی منظوری کا شور مچاتے رہتے تھے۔ اب جبکہ استعفے منظور ہو چکے تو اُن کی ٹیں ٹیں شروع ہو گئی۔ ”خود کردہ را علاجے نیست“ کے مصداق ہم کہتے ہیں
اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں