پاکستان کو قائم ہونے 76 برس سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے مگر اب تک غریبوں کے ارمان۔ خواب۔ حسرتیں۔ خواہشات اور کسی بہتری کی امید سپردخاک ہے۔ جو کوئی بھی اقتدار کی راہداریوں میں أیا اسی سے ان کی آس۔ امید اور چہرے پر رونق کی توقعات بر امید ہوتیں مگر کیسے جب رہبر ہی رہزن ہوں تب منزل کیسے میسر آ سکتی ہے ۔ بدحالی کیسے خوشحالی میں منتقل ہو سکتی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت جب کسی مملکت یا ریاست میں بنیادی حقوق کا، قتل عام ہو ۔قاتل مسیحا ٹھہریں تب ہی دامن کس کے آگے پھیلانا لازم ہے۔لٹیروں کی بہتات میں کبھی بہتری نصیب نہیں ہوئی بلکہ ایسا سوچنا بھی دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔ یہ وہ ریاست ہے جہاں لوگ اپنے حقوق بنیادی سہولیات چہرے پر رونق۔ دو وقت کی روٹی کے حصول کی حسرت میں نسل در نسل مٹی میں بدل گئے ان کی ایک نسل دوسری نسل تیسری نسل اور اب آنے والی نسلیں بھی ادھوری اور اپاہج ہیں اور رہیں گی۔ اقتدار اقتدار اور اختیار اختیار کی جنگ میں یہ طبقہ جن کے چہرے یوں جیسے مردہ ہیں۔ آنکھیں دھنسی ہوئیں۔ بھوک سے بلکتے ہوئے سارا خاندان۔ رہنے کے لیے جھونپڑیاں۔ چھوٹے چھوٹے کچے مکان۔نہ تعلیم کی سہولت نہ صحت کی ۔ مہنگی بجلی ان کے نصیب سے دور کر دی گئی
کسی بھی عام سے ہسپتال چلے جائیں دروازے پر گھنٹوں گذرانے کے بعد کہیں ان کا چیک اپ ہوتا ہے۔ہر وقت دھتکار۔ہر وقت پھنکار۔ہر لمحہ گالیاں۔ ہر وقت بے عزتی ۔ ہر وقت لعن طعن۔ہر وقت غلامی کا طوق گلے میں ڈالے یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ انہیں اس انکم سپورٹ پروگرام سے روزگار دیا جاتا۔ادارے قائم کئے جاتے۔ انہیں سہولیات دی جاتیں۔ ان کی عزت نفس کا دھیان کیا جاتا مگر ایسا کرتا کون۔کیونکہ ایسا کرنے والوں نے باہمی سوچ سے ان کے ارد گرد ایک ایسا دائرہ بنا رکھا ہے جس میں یہ ازل سے مقید ہیں اور اس بھنور سے ان کے نکلنے کی کوئی آس۔ کوئی امید دور دور تک نظر نہیں أتی۔ تقریبا سولہ سال قبل حکومت نے ہمارے سابق آقاوں کے ساتھ مل کر انہیں مزید محکوم۔ہڈ حرام اور بھکاری بنانے کا پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے لانچ کیا گیا شازیہ مری خیر سے اس سونے کی چڑیا کی پہلی شہزادی تھیں۔ جولائی 2008 میں 90 ملین فنڈز اس میں جھونک دئیے گئے۔ ابتدائی طور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 4۔ 5 ملین افراد کو اس رقم سے نوازا گیا ۔ گورے کے ملک برطانیہ کا محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی اس پروگرام کا سب سے بڑا حمایتی ہے جو 2016 میں کل فنڈ کا 27 فیصد حکومت پاکستان کو سالانہ ادا کرتا تھا اورابھی تک ادا کرتا آ رہا ہے۔ اس وقت 471 بلین روپے اس کے لیے مختص کئے گئے تھے۔ مس روبینہ خالد اس کی چیر پرسن جبکہ امیر علی احمد اس کے مرکزی سیکرٹری ہیں۔ ہر سال اس بھیک منگ پروگرام کے لیے اب تک سیاسی شہرت حاصل کرنے کے لیے جھونکی گئی رقم کا اگر کسی درست پالیسی کے تحت تصرف ہوتا تو اس وقت تعلیم۔ صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات ہر گھر کو میسر ہوتیں۔ مگر پیسوں کی ادائیگی جو مجموعی طور پر کبھی ماہانہ زیادہ تر سہ ماہی کی صورت میں اقساط جاری کی جاتیں ہے ان میں ذلت تو بنیادی چیز ہے بلکہ مستحقین کو پیسوں کی وصولی کا منظر دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ صبح صبح جب کچہری جانے کے لیے نکلتے ہیں تو تب سے دور دراز سے أنے والی کسی اور مخلوق سے تعلق رکھنے والی یہ جنس ایسی شاہد کے سامنے لائنین بنا کر کھڑی نظر آتی ہے واپسی ہوتی ہے تب بھی یہ قابل رحم مخلوق تپتی دھوپ میں اسی طرح لائنوں میں ہی نظر آئے گی متعلقہ محکمہ کی چھتر چھاوں تلے ان خواتین کے ساتھ شرمناک رویہ اپنی جگہ۔ دو ہزار روپے فی کس کٹوتی اپنی جگہ مگر جو سب سے بڑی کرپشن ہے وہ مختلف مستحقین کے شناختی کارڈ سکین کرنے کے بعد ان کی پوری کی پوری رقم کرپشن کے کسی چور دروازے سے نکال لی جاتی ہے۔ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کا تاریخی قصبہ صدر گوگیرہ میرا ہوم ٹاون ہے آج کل یہاں کے بوائز ڈگری کالج میں بھی مستحق خواتین کو رقم کی ادائیگی کا سلسلہ بھرپور کرپشن کے ساتھ جاری و ساری ہے۔چند روز قبل الراقم نے سنٹر کا چکر لگایا تو معلوم ہوا کہ عورتوں کو صبع سے 5 بجے تک بٹھا بٹھا کر واپس بھیج دیا جاتا ہے اور سنٹر میں موجود انہی کے چھوڑے ہوئے کارندے ان سے دو ہزار کے عوض رقم لے کر دینے کی ڈیل کر کے انہیں یوں کلیر کراتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ دو دو ہزار روپے دینے والی عورتوں جن کا کوئی گارنٹر ہوتا ہے انہیں رات ہی یا ان کے گھر جا کر بائیو میٹرک کر لی جاتی ہے۔ صدر گوگیرہ اوکاڑہ کے اس سنٹر پر سپیشل اور سیکیورٹی برانچ کے اہلکاروں کو علم ہوا کہ ڈیوائس رکھنے والے کچھ مقامی افراد نہ صرف 2۔ 2 ہزار روپے وصول کر رہے ہیں بلکہ چار افراد پر مشتمل ایک ٹیم تو باقاعدہ ضلع اوکاڑہ کی دوسری نکڑ جو تحصیل دیپالپور کے علاقوں حویلی لکھا۔ بصیر پور وغیرہ کی رہائشی عورتوں کے بھی گھر بیٹھے پیسے نکال کر جیب گرم کر رہی بے۔ نظیر انکم سپورٹ پروگرام اوکاڑہ کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے معہ اپنے سٹاف۔ سپیشل اور سیکیورٹی برانچ کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر بوائز کالج میں قائم سنٹر پر چھاپہ مارا تو کرپشن کی ہوشربا داستانیں بازگشت تھیں۔ مقامی ایس ایس او بھی موقع پر پہنچ گیا اور تین کرپٹ ملزمان شاہ زیب۔ فاروق نعمان اور کاشف کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا جبکہ ایک ملزم علی بعض اطلاعات کے مطابق دو ملزمان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ واضح رہے کہ دو تین روز الراقم نے سنٹر انچارج سعید احمد کو بتایا تھا کہ ٹھیک ہے آپ کے بقول آپ کے آپ کرپشن سے پاک ہیں اس گورکھ دھندا میں دور دور تک ملوث نہیں مگر سنٹر پر جو کرپشن کی گنگا بہہ رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے تب انہوں نے فرمایا کہ وہ کل سے مزید سختی کرتے ہیں اسی کے بعد چند عورتوں نے بتایا کہ ( یہ 22 مئی کی بات ہے ) کہ پولیس کی جانب سے تعینات ایک میل کانسٹیبل اور 2 لیڈی کانسٹیبل بھی ان کو آفر کرتی ہیں کہ پیسے دیں تمہیں رقم لے دیتے ہیں اتفاق سے اسی روز سنٹر میں ( جس کا علم بعد میں ہوا) ایک ایجنٹ کرپشن کرتے ہوئےڈیوٹی پر مامور کانشٹبل کے ہتھے چڑھ گیا جسے وہ کانسٹیبل اوپری منزل سے اسے نیچے لے آیا تب اسی انچارج نے کالج کی لائبریری میں مبینہ طور پر 500۔ 500 روپے والے نوٹوں کی بڑی مقدار سے اس ایجنٹ کی جان چھڑائی تھی۔ بات ہو رہی تھی اپنی آئی ڈی سے دور علاقہ کی عورتوں کے گھر بیٹھے پیسے نکالنے کی تو اس ضمن میں متعلقہ محکمہ کی جانب سے جس استغاثہ پر قابل ضمانت جرم دفعہ 420 کے تحت مقدمہ درج کرایا گیا اس میں محکمانہ مجرمانہ غفلت کے تحت نہ گواہان کا ذکر۔ نہ میگا کرپشن کی ٹرانزیکشن کا ذکر۔جس کا اثر یہ ہوا کہ متعلقہ سنٹر میں اس وقت بھی کرپشن عروج پر ہے۔ من مانی اور اندھیر نگری میں کچھ فرق نہیں پڑا۔ یہ بات بھی قارئین کے ساتھ شیئر کرتے چلیں کہ جس محکمہ کے ساتھ بھی کوئی مسلہ یا گھپلا ہوتا ہے اسی محکمہ کا کوئی ذمہ دار آفیسر مدعی ( مستغیث) مقدمہ بنتا ہے اسی محکمہ کے کم از کم دو گواہان بھی شامل ہوتے ہیں تحریر میں سرزد ہونے والے جرم کی مکمل اور واضح نشاندہی ہوتی ہے مثال کے طور پر بجلی چوری کا مقدمہ ہمیشہ متعلقہ ایس ڈی او کی جانب سے جاری استغاثہ پر درج ہوتا ہے مکمل تفصیل اور چھاپہ مار ٹیم کی بھی مکمل تفصیل دی جاتی ہے۔۔ بہرحال کرپشن کا یہ میگا سکینڈل جو دوسروں کے بھی عبرت کا نشان بنتا مگر درج مقدمہ کسی مذاق سے کم نہیں اس میں محکمہ کی مجرمانہ غفلت کہیں یا کرپشن میں شراکت داری یا موقع پر مک مکا۔ یہ کیس سیدھا سیدھا سائبر کرائم کا بنتا ہے سائبر کرائم یونٹ اوکاڑہ فوری طور پر کرپشن کی اس بڑی لہر پر سرگر عمل ہو اور متعلقہ محکمہ کی غفلت یا کرپشن کو بھی بے نقاب کیا جائے۔شہر اقتدار اسلام آباد کے وفاقی سیکرٹریٹ کے سامنے ایک شاندار بورڈ لگا ہے جس میں اس بھیک منگ پروگرام بارے لکھا ہے کہ۔۔ اس صاف شفاف پروگرام کے تحت غریبوں کی خودداری اور انا کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے معاشی مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے۔ یہ پتہ نہیں کہ اس پروگرام سے پوری قوم بھکاری بنا دی جائے گی۔ دو تین سال قبل ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی جس کے مطابق بڑے بڑے بیوروکریٹس۔ اعلیٰ شخصیات۔ سرکاری افسران۔ ملازمین کے خاندان بھی اس سکیم میں شامل ہیں۔ اس پروگرام کوسائٹیفک طریقہ ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہےرقم کی تقسیم کا بھی کوئی بہتر لائحہ عمل جس سے مستحقین کی عزت نفس بھی مجروع نہ ہو جو وفاقی سیکرٹریٹ کے سامنے منہ چڑاتے بورڈ کو تو کم از کم سرخرو کر سکے۔ عوام تو پھر ہیں ہی 10 فیصد آقاوں کی غلام اور غلاموں کی بہتری سوچنا ہمارے معاشرے مطابق جرم ہے۔