ایڈیٹر کے قلم سےتازہ ترینکالم

زندگی کا انجام موت ہے

زندگی بہت بڑی نعمت ہے، ایسی نعمت جس کا کوئی بدل نہیں، جو جانے کے بعد واپس نہیں آتی، انسان یہ نعمت اپنی محنت اور کاوش سے حاصل نہیں کرتابلکہ کائنات کے رب کا عطیہ ہے۔ ایسا عطیہ جو علم و تحقیق کی اتنی ترقی کے باوجود ایک سربستہ راز ہے،انسان اپنی ”زندگی“ کا خود مالک نہیں ہے بلکہ امین ہے۔ زندگی اس نے حاصل نہیں کی ہے بلکہ اسے عطا کی گئی ہے۔ یہ اس کے پاس خالق کائنات کی امانت ہے اور ممکن حد تک اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے،کوئی بھی ایسا عمل جو انسانی صحت یا زندگی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہو، جائز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسی چیز کے کھانے سے منع فرمایا، جو نشہ آور یا جسم کو نقصان پہنچانے والی ہو۔
موت زندگی کا خاتمہ کہیں بھی کر سکتی ہے اس کا علم نہ مجھے ہے اور نہ آپ کو،بلکہ اس سب کا اختیار آپ کے اور میرے آقائے دوجہاں کے ہاتھ میں ہے۔موت زندگی کو کسی بھی جگہ سے اپنے مقرر کردہ جگہ پر خود بلا لیتی ہے۔ ایسا ہے کچھ واقعہ گزشتہ دنوں ضلع سوات کے شہر مینگورہ کے قریب ایک ہی خاندان کے 18 افراد دریا کی لہروں کی نظر ہوگئے جن میں سے 3 کو بچا لیا گیا اورباقی افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ لوگ جہاں ناشتہ کر رہے تھے وہ حادثہ کے مقام سے تھوڑا دور تھا اور اس وقت وہ علاقہ بالکل خشک تھا اور پانی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔واضع رہے کہ پہاڑوں پر 2 دنوں سے مسلسل بارش ہو رہی تھی جسکی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا اور اچانک پانی کو آتے دیکھ کر یہ لوگ خوشی کے مارے وہاں دوڑ کر گئے تاکہ ویڈیوز اور تصاویر بنا سکیں اور ان لمحات کو یاد گار بنا سکیں مگر کسے خبر تھی کہ ساری دنیا ان بدنصیبوں کا تماشہ دیکھے گی مگر موت سے ان کو کوئی بھی بچا نا پائے گا۔کچھ رشتے دار وہیں بیٹھے رہے اور انہیں منع کرتے رہے کہ پانی کے اندر مت جائیں مگر ان کو خبر نا تھی کہ پانی کا بہت بڑا ریلا آ رہا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس خوفناک تیز ریلے نے ان کو اپنی لپٹ میں لے لیا تاہم یہ لوگ خوفزدہ ہو کر کنارے کی طرف بھاگنے کی بجائے ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور پانی کا بہاؤ تیز ہوتا گیا کئی گھنٹے تک یہ لوگ اسی ٹیلے پر رہے مگر پانی کا بہاؤ کم نا ہوا اور بے رحم موجوں نے انہیں بہا دیا۔
فسوس کی بات تو یہ ہے کہ اتنا ٹائم ان کی موت کا تماشہ دیکھنے کی بجائے کوئی ریسکیو آپریشن شروع نا کیا گیا اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ جب انتظامیہ کو معلوم ہے کہ دریا کی خالی جگہوں میں اچانک سے پانی آتا ہے تو ان جگہوں پر باڑ لگا کر اسے ممنوعہ علاقہ کیوں قرار نہیں دیا گیا؟ اس ایریے میں دکانداروں کو کیوں کاروبار کرنے دیا جارہا ہے؟ صوبائی حکومت نے ایسے ایریا میں ریسکیو 1122کا نزدیک ترین آفس کیوں نے بنایا ہوا۔ جب سیرو سیاحت کے لیے پوائنٹ بنا رکھا ہے تو پھر انتظامیہ کوچاہیے تھا کہ وہ سیاحوں کی حفاظت کے لیے بھی انتظامات کرے۔
موت نے پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے شہر ڈسکہ کے اس خاندان کو گھومنے پھرنے کے بہانے سوات کے علاقے میں بلایا اب کسی بھی افراد کو نہیں معلوم تھا کہ یہ لوگ گھومنے جارہے ہیں یا موت کو گلے لگانے۔
اس جیسا ایک واقعہ جمبر ضلع قصور میں بھی پیش آیا جہاں ضلع اٹک کے دو بھائی بذریعہ آئل ٹینکر اپنی موت کو گلے لگانے جمبر بی ایس لنک نہر میں پہنچ گئے۔ ویسے تو یہ ڈرائیور بھائی روز کہیں نہ کہیں کا سفر کرتے تھے مگر اس دن انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ موت کے سفر پر روانہ ہورہے ہیں۔ تین دن پہلے رات کے بارہ بجے کے قریب جمبر کے قریب سے گزرنے والے بی ایس لنک نہر میں ایک آئل ٹینکر گرا۔ جس کی اطلاع کسی بھائی نے ریسکیو 1122کو دی جو اسی وقت موقع پر پہنچ گئی۔ یادرہے موقع سے صرف 6کلومیٹر دور پھولنگر میں ریسکیو 1122 کا دفتر موجود ہے۔کافی تگ ودو کے بعد آئل ٹینکر نکالا گیا مگر افسوس کہ اس کا اگلا کیبن نہ نکل سکا۔ اس کیبن کی تلاش میں مزید دو دن ریسکیو والے لگا رہے پھر جا کر غوطہ خوروں کی مدد سے اس کیبن کوتلاش کرکے نکالا جس میں صرف ایک لاش ملی جبکہ دوسرے بھائی کی لاش ابھی تک لا پتہ ہے۔
اب موت کی حقیقت سے کسی انکار نہیں مگر ایک چیز جو ضروری ہے وہ احتیاط بھی ہے۔ اگر ڈسکہ والی فیملی پانی کو دیکھ کر واپس آجاتی یا ٹیلے کی بجائے واپس اپنی ہوٹل کی طرف آجاتے تو یہ سانحہ نہ ہوتا یا آئل ٹینکر کا ڈرائیور احتیا ط سے چلا تا تو شاید ان دونوں بھائیوں کو اپنی جان سے نہ ہاتھ دھونا پڑتا۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرنے والوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے گھروالوں کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔
مگرسب سے بڑھ کر بات تو یہ ہے کہ اللہ نے ان کی موت ایسے ہی لکھاہوگا۔انسان کچھ بھی کرلے مگر رب کے آگے بے بس ہے کیونکہ اس کائنات کا خالق و مالک وہی ہے اور اس نے ہی ہمارے لیے سب کچھ کرنا ہے۔

Related Articles

Back to top button