آج مورخہ 8فروری2024ء ملک بھرمیں 12کروڑسے زائدووٹرزاپنی اپنی پسندکے امیدوارکے حق میں ووٹ کاسٹ کررہے ہیں،الیکشن 2024ء تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن ہوں گے،الیکشن 2018ء میں ایک جماعت کی قیادت جیلوں میں تھی یامقدمات کاسامناکررہی تھی پراُن کاانتخابی نشان بیلٹ پیپرزپرموجودتھااس بارایک پارٹی کومکمل طورپرالیکشن سے باہرکردیاگیاہے جوالیکشن کوانتہائی متنازرعہ بنارہاہے۔سابق وزیراعظم میاں شہبازشریف کے انتخابی حلقے این اے 123کے عوام کی بڑی تعداداس بارکسی کوبھی ووٹ نہیں دین چاہتی۔یہاں ووٹنگ ٹرن آوٹ انتہائی کم رہنے کاخدشہ ہے۔این اے 123کی کل آبادی 9لاکھ11ہزار608ہے جن میں مردووٹرزکی تعداد2لاکھ21ہزار756ہے، خواتین ووٹرزکی تعداد1لاکھ83ہزار46 ہے،این اے 123میں 8فروری2024ء کے دن ٹوٹل4لاکھ4ہزار802ووٹرزاپنے نمائندے کا انتخاب کریں گے،ماضی کے انتخابات میں اس حلقے سے زیادہ تر پاکستان مسلم لیگ ن،پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے آئے ہیں جبکہ جنرل پرویزمشرف کے دورحکومت میں پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدواربھی کامیاب ہوچکے ہیں۔ گزشتہ الیکشن 2013ء اور2018ء یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے اُمیدوار میاں شہبازشریف نے قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ضمنی الیکشن میں باوجود اس کے کہ مرکز اور صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بن چکی تھیں پی پی 165 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرملک سیف الملوک کھوکھر نے پی ٹی آئی کے چوہدری منشاء سندھو کو باآسانی شکست سے دوچار کرکے کامیابی حاصل کی،موجودہ الیکشن 2024ء میں بھی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 123 اور صوبائی حلقہ پی پی 158 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدرمیاں محمد شہبازشریف اُمیدوارہیں ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ افضال عظیم پاہٹ،جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ،تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے امجدنعیم،پاکستان پیپلزپارٹی کے محمدضیاء الرحمان،راشدمحمود ایم یم ایل،محمدزاہد بشیر،عبدالصمدخاں،تسنیم افضال پاہٹ،ارشدحسین، میاں محمدسلیم،جے یوآئی ف کے حیدرعلی،عاطف عطاپی ٹی ای کی جانب سے،لطیف احمدحسین پی اے ٹی کے ٹکٹ پرقسمت آزمائی کررہے ہیں پنجاب اسمبلی کے حلقوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں شہبازشریف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ حاجی یوسف مئیو آزاد امیدوار کی حیثیت سے، تحریک لیبک پاکستان کے ٹکٹ پر امجدنعیم،جماعت اسلامی کے چوہدری اعجاز،پاکستان پیپلزپارٹی کے مصطفے جٹ،سیدعمران شریف اوردیگرآزادامیدوارمیدان میں ہیں۔9لاکھ11ہزار608 آبادی والے اس حلقے کے گنجان آبادعلاقہ کاہنہ کو حلقے کے مرکزکی حیثیت حاصل ہے،کاہنہ سے چلنے والی سیاسی ہوا اردگردکے تمام علاقوں میں رائے عامہ پراثراندازہوتی ہے،کاہنہ اورگردنواح کے دیرینہ اورسنجیدہ مسائل میں پینے کاصاف پانی،سوئی گیس و بجلی کی عدم فراہمی اوراضافی لوڈشیڈنگ، تعلیم وصحت کی معیاری سہولیات کی کمی،نادرآفس کی مین برانچ،پارک، کھیل کے میدانوں کا نہ ہونا اورقبرستانوں میں توسیع کیلئے زمین کی عدم دستیابی ہیں۔کئی جگہ سیوریج اورپی سی سی کی تعمیرومرمت کے مسائل بھی توجہ طلب ہیں۔الیکشن2024ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت کے بعدیہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں شہبازشریف۔رحمانی،مئیو،جٹ،ملک اورانصاری برادری کی اکثریت کی سپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کانظریاتی ووٹ بینک اپنی جگہ قائم ہے،یہاں تحریک لبیک پاکستان کے نظریاتی ووٹ بینک میں ماضی کے مقابلے خاصہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی بدولت تحریک لبیک پاکستان کے اُمیدواردوسری پوزیشن حاصل کرسکتے ہیں،حلقے کی مجموعی صورتحال کے مطابق یہاں کسی بڑے سرپرائزکی توقع نہیں کی جاسکتی۔حلقے کی اکثریت کایہی خیال ہے کہ یہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے اُمیدوارمیاں شہبازشریف باآسانی کامیاب ہوجائیں گے، حلقہ کے عوام کی اکثریت میاں شہبازشریف سے یہ شکوہ کرتی ہے کہ انہوں نے ماضی میں کبھی بھی اپنے انتخابی حلقے کو اس قدرتوجہ نہیں دی جتناحق بنتاہے،جس حلقے کاایم پی اے وزیراعلیٰ بنے،جس حلقے کاایم این اے وزیراعظم بنے وہاں پینے کے صاف پانی،سیوریج،قبرستانوں کی توسیع،سوئی گیس،نادرا آفس،پارک اور کھیل کے میدان جیسے مسائل کاحل ہوجاناچاہیے تھا،کاہنہ کے عوام کو پاکستان مسلم لیگ ن سے ایک شکوہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پارٹی نے کبھی بھی مقامی پارٹی ورکرکو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔لوگ کہتے ہیں میاں شہبازشریف تک حلقے کے عوام کی رسائی ممکن نہیں،یہاں کے تمام معاملات این اے 124سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواررانا مبشراقبال ہی دیکھتے ہیں۔اہل علاقہ کوامیدہے کہ عام انتخابات میں کاہنہ کے کسی ورکرکوٹکٹ نہیں ملاتوضمنی الیکشن میں ضرورملناچاہیے،کاہنہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدواروں میں سرگرم کارکن اصغرمجیدآف گجومتہ،ملک جاویداقبال،رمضان مستانہ، ملک خالدفاروق کھوکھراوردیگرشامل ہیں۔اہل حلقہ کاکہنا ہے کہ میاں شہبازشریف کی پارٹی اورملکی ذمہ داریاں انتہائی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے انتخابی حلقے پرتوجہ نہیں دے سکتے لہٰذا مقامی رہائشی نمائندے علاقے کے مسائل کوزیادہ توجہ دے سکتے ہیں
Related Articles
Check Also
Close
-
فیصلہ عوام کاJanuary 2, 2024