
گذشتہ دنوں اسلام آباد سے اوکاڑہ واپسی ہوئی بس موٹر وے پر نکلی تو حسب سابق اپنی سوچوں میں گم ہو گیا بس میں کسی سے فری ہوتا ہوں نہ ہیڈ فون لے کر میوزک وغیرہ کی طرف کبھی دھیان کیا اکثر اوقات سفر کی وجہ سے موٹر وے اور گردونواح کی ایک ایک جگہ کا پتہ ہے کافی سفر کے بعد بس ہوسٹس کی طرف سے سروس ایریا چند منٹ سٹاپ کا بتایا گیا بس رکی ہم سب مسافر نیچے اترے میں نے کبھی کسی سروس ایریا سے کچھ نہیں لیا مجھے پتہ ہے کہ موٹرویز کے سروس ایریاز میں مسافروں کے ساتھ کیا ہوتاہے مضر صحت ناقص اشیائے خورونوش مہنگے داموں فروخت کرنا وہاں کا وطیرہ ہے ان کا رویہ بہت بھی گھٹیا جبکہ کسی مسافر کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ بحث کر سکے آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا میری گاڑی کے ہی ایک مسافر نے بچوں و فیملی کے لیے کچھ سامان لیا بل اس کی توقع سے کئی گنا زیادہ مانگا گیا جس پر اس نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تب اسی مارٹ کے چار سے پانچ لوگ آکر اس سے الجھتے ہوئے اسے بے عزت کرنے لگے کہ تم پہلے ریٹ پوچھ کر خرید کرتے ہمارا ریٹ یہی ہے جو کرنا ہے کر لینا ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں چاروناچار وہ مسافر پیسے ادا کر کے بس میں واپس آ بیٹھا اس سے چند دن قبل مجھے پنڈی میں بھی ایک ایسا ہی سین نظر آیا تھا یہ سب کچھ ذہن کو اپنی جانب جکڑتا گیا اور سوچ کی سب راہیں اسی جانب محو سفر ہو گئیں ہمارا معاشرہ کتنا شتر بےمہار ہو چکا ہے کسی کو خدا کا خوف نہیں اداروں کو تو چھوڑیں وہی تو ایسی لوٹ مار جیسی سوچ کی آبیاری کرتے ہیں انہیں شہہ دیتے ہیں ان سے بھتہ وصول کرتے ہیں اگر سسٹم درست سمت میں کام کرے بے رحم احتساب ہو تو ہی بہتری ممکن ہے جب بخوبی پتہ ہے کہ جس نے ہمیں گرفت میں لانا ہے اسی کی بدولت ہی تو ہم ازاد ہیں اور سب گھٹیا سامان گندے دو نمبر مشروبات۔ کیمیکل سے بنا دودھ گندی اور مردہ چربی سے بنا ہر فرد کی ضرورت گھی ناپ تول میں کمی ذخیرہ اندوزی گراں فروشی مردہ مرغیوں کی سپلائی گدھے کا گوشت مرچوں میں برادہ شامل پٹرول اور ذیل کا پیمانہ کم اوپر سے کیمیکل اور ایرانی تیل کی ملاوٹ پبلک ٹرانسپورٹ دنیا کی گھٹیا ترین ہمارے نصیب میں اوپر سے من مرضی کے کرائے جو ایک بار بڑھ گئے تو پھر کم نہیں ہوں گے کھاد اور زرعی ادویات کی تیاری کی فیکٹریاں گھر نما عمارتوں میں دن رات مصروف اور جو رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں ان کی بچت یوں ہے جیسے بندہ ہیروئن کا کام کر رہا ہے کسی کام پر کوئی قابل گرفت چیک اینڈ بیلنس نہیں موٹرویز کے سروس َایریاز پر کبھی کبھار جرمانے وغیرہ کی نیوز پھیلا دی جاتی ہیں مگر یہ لوٹ مار جو سارا دن چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے کو کئی سال گذرنے کے باوجود لگام نہیں ڈالی جا سکی ایسے کام لکھتا جاوں تو الفاظ ختم ہو جائیں گے یہ معاشرتی کمینگیاں و خرافات ختم نہیں ہوں گی ۔ بہت سے باریش اور پکے نمازی دیکھے ان محراب زدہ شخصیات کے کاروباری کرتوت سب سے شرمناک ہیں ( ہر ایک نہیں بہت سارے اللہ کے نیک اور پرہیز گار بندے بھی ہیں) ماہ رمضان ہو ماہ محرم الحرام ہو جشن عید میلادالنبی ﷺ ہو ان کی دیگیں سب سے زیادہ کھڑکتی نظر آئیں گی ان کی ظاہری اور دنیاوی دکھاوے کی سخاوت کا عالم یہ ہو گا کہ غرباً صبح سے شام تک قطار میں ان کے در پر للچائی اور مفلس نظروں سے بلکتے نظر آئیں گے یہی طبقہ سب سے زیادہ عوام کا سینہ پھاڑ کر غریبوں کا خون نچوڑ کر اس میں سے کچھ غریبوں کو ایسے دیں گے جیسے ان جیسا نہ کوئی درد دل والا نہ سخی ہے نہ نیک ہے عمرے پر عمرہ بھی یہ کریں گے یہ سب کچھ میری سوچ کے ذریعے میرے دماغ کو نشتر کی طرح چبھ رہا تھا تب ذہن میں آیا کہ انسان ایسا کردار کیوں ادا کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں انہیں نہ تو کوئی دیکھ رہا ہے نہ کسی کو پتہ ہے کسی ادارے کے لوگ آئے تو وہ جرمانہ ادا یا مٹھی گرم کر دیں گے بس قصہ ختم ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا پیر کے روز چھٹی کے بعد بسوں میں بہت رش اور اوورلوڈنگ عام ہوتی ہے چند سال قبل مجھے بھی پیر کے روز ہی اوکاڑہ سے لاہور جانے کا اتفاق ہوا ہر بس بھری ہوئی بمشکل ایک بس میں جگہ مل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی مکمل فل ہو گئی میں اتفاق سے ڈرائیور کے کچھ قریب ہی تھا اس نے خود کوئی دو فرلانگ آگے کھڑی موٹر وے پولیس کی گاڑی کے پاس بس کھڑی کی اور ان سے اپنی مرضی مطابق چالان کٹوایا بس عملہ پولیس کے ساتھ اتنا فری نظر آیا جیسے یہ سب بھائی ہیں کچھ دیر بعد یہ بات آشکار ہوئی کہ یہ چالان جان بوجھ کر ان سے کروایا گیا ایک تو کم پیسوں والا دوسرا ایک چالان کے بعد اب جتنی بھی اوورلوڈنگ کر لو مزید یا زیادہ جرمانے کا چالان نہیں ہو گا تیسرا موٹر وے پولیس کے چالان کا کوٹہ بھی پورا ہو رہا تھا اندازا کریں لوگ کس کس طرح چور بازاری کے راستے نکال لیتے ہیں دنیا کا کوئی بھی جرم کر لیں خباثت کر لیں بنیادی طور پر یہ نادان انسان یہی سمجھتا ہے اسے دیکھ کون رہا ہے وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے اس کا رازدار کوئی نہیں وہ کسی کا حق کھا رہا ہے ذخیرہ اندوزی کر رہا ہے ناپ تول میں کمی کر رہا ہے خالص دودھ کی جگہ کیمیکل بنا دودھ دے رہا ہے مردہ جانوروں کی چربی استعمال کر رہا ہے حلال گوشت کی جگہ مردہ گوشت کھلا رہا ہے کسی کو کیا پتہ جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ خداوند کریم ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ فراموش کر بیٹھتا ہے کہ کسی بند کمرے میں کیا دنیا کے کسی بھی مقام پر وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ وہ جو بھی فعل کرے جیسے کرے جہاں کرے ذات اقدس اس کے ساتھ ہے وہ دیکھ رہا ہے کہ تم کر کیا رہے ہو تم میری ہی مخلوق کا خون چوس کر دیگیں چڑھاتے ہو زکواۃ دکھا دکھا کر دیتے ہو لوگوں کو راشن پہنچاتے ہو کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا خدا اتنا ہی غافل ہے صدیوں قبل برصغیر میں ایک حکمران کے دور میں سرمد مست نامی مجذوب ششخص کو قاضی نے سزائے موت کا حکم سنا دیا اس کیس کی بنیادی بات یہ تھی کہ سرمد مست کہتا واقعہ معراج النبیﷺ کے موقع پر حضور پاک ﷺ عرش پر نہیں گئے جس پر انہیںں موت کی سزا سنا دی گئی جبکہ ان کا موقف یہ تھا کہ میرے آقا ﷺ عرش پر نہیں گئے وہ اتنے عظیم ہیں کہ عرش کا سب کچھ ان کے پاس پہنچا دیا گیا خیر یہ ایک دینی اور حساس موضوع ہے اس پر ہم بات نہیں کرتے مگر مجذوب اپنی عقیدت پر قائم اور قاضی عدالت اپنی شریعت اور عدل پر قائم تھا تب اسے سزا سنا دی گئی مگراس کی مجذوبیت کی وجہ سےعمل نہ کیا گیا ایک روز بادشاہ وقت کا ادھر سے گذر ہوا اس نے سرمد مست کو دیکھا حکم دیا کہ اسے فوری نہلا کر پھٹے پرانے کپڑے تبدیل کرکے مسجد میں پہنچاو ہرکاروں نے بات پر آنافانا عمل کیا سرمد مست کو پکڑ کر پہلی صف میں لا کھڑا کیا جب امام نے نیت باندھنے کو کہا تو اس کے اللہ اکبر کہنے سے قبل سرمد مست یہ کہتا وہاں سے بھاگ نکلا کہ تمہاری اور بادشاہ کی نیت میرے پاوں کے نیچے سرمد کو مسجد سے باہر بادشاہ کے پہریداروں یا سپاہیوں نے پکڑ لیا نماز کے بعد بادشاہ سلامت باہر نکلے انہوں نے سرمد مست سے پوچھا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی تب اس نے مجبوراً اپنی زبان کھولی اور بادشاہ کو بتایا کہ بوقت نیت مولانا صاحب سوچ رہے کہ آج قسمت بہت اچھی ہے میرے پیچھے نماز پڑھنے بادشاہ سلامت آئے ہیں بہت انعام ملے گا جبکہ آپ سوچ رہے تھے کہ رعایا پر کون سا نیا ٹیکس کیسے لگایا جائے ( سرمد مست کی بات اس کی سزا تک پہنچتی ہے مگر یہاں کچھ اور کہنا مقصد تھا) جب پھٹے ہوئے کپڑے پہنے میلا کچیلا شخص نیتوں کا حال بتا سکتا ہے تو اس کا خالق و مالک کتنی دسترس رکھتا ہو گا یہ دنیا فانی ہے یہ مال و دولت سب کچھ ادھر رہ جانا ہے جہنم کا ایندھن اکٹھا کرنے میں اپ خالق و مالک کو بھی خود سے الگ سمجھتے ہو بہت نادان ہو جن رشتوں کی خاطر دنیا میں خلاف فطرت کام کرنے میں محو ہو ممکن ہے وہ تیری قبر پر کبھی نہ جائیں ابھی پاکستان میں تاریخ کی شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہا اس دوران نہ جانے کتنے قبرستانوں میں پانی بھر گیا انسانی باقیات تیرتی نظر آئیں اب بھی یہی سوچ لیں پانی سے بچاو کے لیے قبر ہی کم از کم ایسی بنا دی جاتیں یا ان کی دیکھ بھال کی جاتی رہتی تو یوں انسانی باقیات بارش کے پانی میں تیر کر نشان عبرت نہ بنتیں وہ تمہارے بڑے یا چھوٹے تھے سوچو یہی کچھ تمہارے ساتھ بھی ممکن ہے اے انسان تو تنہا نہیں کہ جو دل میں آئے گناہ کرتا چلا جائے اور تیرے ذہن میں یہ ہو کہ تیرے آس پاس کوئی نہیں نہ کوئی تجھے دیکھ رہا ہے نہ تو کسی کو ۔کیوں خود کو ہی دھوکہ دے رہا ہے درحقیقت تو تنہا نہیں تیرے ساتھ کوئی اور بھی ہے ذرہ سوچنا وہ بھی تنہائی میں۔۔