تحریر عقیل خان
سال نو کا آغاز ہوگیا۔ ہرطرف خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ دوست،رشتے داروں کو نئے سال کی مبارک باد دی جارہی ہے۔تحفے تحائف پیش کیے جارہے ہیں۔ اسی طرح کے پیغامات کا سلسلہ میرے وٹس ایپ نمبر بھی رات بھر سے جاری تھامگر سنا تھا کہ نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ اسی کے مترادف رات کو سونے کے باعث مسیج کو پڑھنے کاوقت دن نکلے ملا۔ انہیں مسیج میں ایک دوست کا مسیج میری نظر سے گزرا۔ جس میں کچھ یہ الفاظ درج تھے۔
تمام والدین کو اُن کے بچوں کی تعلیم کی بندش مبارک ہو لیکن حکام کو بتانا چاہتا ہوں کہ یورپ میں برفباری کے باوجود سکول کھلے ہوئے ہیں اُن کے بچوں کو سردی بھی نہیں لگتی۔ والدین کو دیر بعد اس بات کا اندازہ ہو گا کہ ان کے بچوں کو سردی سے نہیں تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے اور نہیں معلوم یہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں اگر یہ ہمارے تعلیم کے دانشوروں کے فیصلے ہوتے تو شاید وہ ایسا ظلم کبھی نہ کرتے۔
کچھ سالوں سے بچوں کو بار بار چھٹیاں دینے کا طریقہ کار اپنا لیاگیا ہے۔ جس سے بچے چھٹی پسند ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ انھیں موسموں سے نبرد آزماء ہونا سکھانا چاہیے اور انھیں اور سکولوں کو موسموں کی سختی سے نمٹنے کی سہولتیں دی جائیں کیونکہ اصل چیز تعلیم ہے۔تعلیم وتربیت سے ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں۔
بہت کم والدین ہیں جو گھر میں بچوں کی تعلیم کے اوپر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ تر بچے بائک, موبائل اور پارکوں کے اندر ضرورت سے زیادہ ٹائم ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ان پر گرمی، سردی،سموگ کوئی اثر نہیں ہوتا۔ رہی صحیح کسر سوشل میڈیا اور موبائل نکال رہا ہے سکول اور والدین بچوں کو ترتیب میں لے کے آتے اور ساتھ ہی چھٹیاں ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسے ہی خاموشی ہماری طرف سے جاری رہی تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی کیونکہ ایک طرف ہم درس دیتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے اور دوسری طرف ہلکی سی سردی گرمی سموگ دہشت گردی سے گھبرا کر سب سے پہلے سکولوں کو بند کیا جاتا ہے۔
میں نے یہ مسیج پڑھا تو میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔ کیا واقعی یہ سب حقیقت پر مبنی ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی پالیسی میکر کے ایسے فیصلہ کرنا درست ہے؟ کیا اس طرح ہمارا ملک تعلیمی میدان میں ترقی کرلے گا؟ کیا ہمارے دیہات کے بچے تعلیمی میدان میں شہری بچوں کا مقابلہ کرپائیں گے؟ اس طرح کے مختلف سوالات نے ذہین میں جنم لینا شروع کردیا۔
پچھلے سالوں میں کروونا نے تعلیمی میدان میں اتنی ترقی کروائی کہ جو بچہ نہم دہم میں پاس ہونے کے قابل نہیں تھا اس کو پاس ہونے کا سرٹیفیکیٹ دلوادیا، بے شک اسے اپنے نام کے سپیلنگ تک لکھنے نہ آتے ہوں۔
مجھے ایک دوست کی یہ بھی تجویز بہت اچھی لگی جس میں اس نے کہا کہ موسم سرما میں 15دسمبر سے 15 فروری تک اور موسم گرما میں 15مئی سے 30 ستمبر تک سکولز بند ہونے چاہیے اور اس کے علاوہ موسمی بیماریوں کی صورت میں بھی ایک دوہفتے تعلیمی ادارے بند ہونے چاہیں اور ساتھ ہی اتنی چھٹیوں کی میں صورت میں محکمہ تعلیم کے تمام ملازمین کی تنخواہیں بند رکھی جائیں اوران کی تنخواہوں سے حاصل شدہ رقم ملکی ترقی میں استعمال کی جائے پھر پتے چلے گا کہ کون چھٹی کی حمایت کرتا ہے اور کون مخالفت؟ ایسا ہی جب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ناخداؤں کے ساتھ ہوگا تو شائد وہ میرے ملک کے ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی درست فیصلہ کرسکیں۔
آجکل ٹک ٹاک پر پرانے دور کی یاد تازہ کی جاتی ہے جس میں دکھایا جاتا ہے کہ بچے سکول میں مرغا بنے ہوئے ہیں اور استاد اوپر چھڑی لیکر کھڑا ہے تو کہیں پر ایک تختی دوسری تختی کے جوڑ کر کھڑی دکھائی گئی ہوتی ہیں۔کہیں پر بچے دائرے میں بیٹھے ہیں اور ایک بچہ کھڑا ہو کر سبق پڑھا رہا ہوتا ہے اور ہم اس دور کو آج کے دور بہتر سمجھتے ہیں جبکہ آج کے دور میں مار نہیں پیار کے نعرے نے اساتذہ کو بچوں کی نظر میں غلام سے زیادہ کا مقام نہیں دیا ہوا۔دوسرے اس دور میں اُن بچوں کو گرمی سردی کا احساس نہیں ہوتا تھاکیا؟
سب کو پتا ہے کہ ہمارے دیہاتوں میں تعلیم کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر بچے کے سکولزکی چھٹی ہوں تو وہ سکون سے گھر نہیں رہتا بلکہ اس کو کھیتوں میں کام کرنے بھیج دیا جاتا ہے خواہ کتنی سردی یا گرمی ہو۔ اگر کسی کی زمینیں نہیں تو اس کو قریبی شہر میں فیکٹری میں بھرتی کرادیا جاتا اور یہ کہا جاتا ہے کہ گھر رہے گا تو آوارہ پھرے گا۔ جو لوگ فیکٹری نہیں بھیج سکتے تو وہ کسی ہوٹل، جنرل سٹور یا درزی کی دکان پر بیٹھا دیتے ہیں یہی فلسفے کے تحت کہ گھر میں رہ کر کیا کرے گا۔ کبھی کسی والدین نے بچے کو اچھی اکیڈیمی پر نہیں بھیجنا ہوتا۔ جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا تعلیمی معیار امیر کا اور ہے غریب کا اور
تعلیم کا حق ہر انسان کو ہے کسی کو کوئی حق نہیں کہ اس میں فرق ڈالے مگر معلوم نہیں ہمارے تعلیمی پالیسی میکر کیا سوچ کر ایسی پالیسیاں بنا تے ہیں؟ ویسے تو 18 سال سے کم عمر بچہ ہی کہلاتا ہے مگر چھوٹے بچے اور بڑے بچوں میں فرق ہوتا ہے۔ جب چھٹیاں کرنی ہوں تو کم ازکم عمر اور کلاس کو مدنظر رکھ کر چھٹی کرادیں تو بھی گزارا ہوسکتا ہے مگر ادھر تو پورا سکول ہی بند کرنا فرض العین ہے۔ اوپر سے ایجوکیشن سے وابستہ اور انتظامیہ سکولوں کو چھٹیوں میں ایسے بند کراتی ہے جیسے وہ کوئی تعلیم دینے نہیں بلکہ کبیرہ گناہ کرنے جارہے ہیں۔
یہ کالم ان غریب والدین کی آواز ہے جن کے بچے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ جن کو بچے پڑھانے کا جنون ہے مگر اخراجات کا بوجھ نہ اٹھانے کی وجہ سے پرائیویٹ کی بجائے گورنمنٹ سکولز میں تعلیم دلواتے ہیں۔پرائیویٹ سکولز تو پھر کوئی نہ کوئی کلیہ لگا کر سکول کھول لیتے ہیں مگر گورنمنٹ سکولز تو فوری بند ہوجاتے ہیں۔
حکام بالا کی نظر یہ تحریرہے کہ وہ اپنی پالیسوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے تعلیم گھر گھر پہچانے کے وعدہ کو پورا کریں۔طالبعلموں کے لیے معیاری تعلیم کا حصول یقینی بنائیں تاکہ ہمارا پاکستان تعلیم کے میدان میں اپنا نام روش کرسکے۔