خیالی پلاؤ پکانے والے
8فروری 2024ء کے عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو ایسا منقسم مینڈیٹ ملاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ اب جوڑتوڑ کی سیاست عروج پراور ملک کی فضائیں دھاندلی کے شور سے مسموم۔ اِن انتخابات میں سارے تجزیے اور تبصرے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نوازلیگ جس کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ وہ واضح اکثریت حاصل کرلے گی وہ بھی ناکام رہی البتہ مرکز میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کرسامنے آئی۔ اِس کے علاوہ صوبہ پنجاب میں اُسے اتنی اکثریت ضرور مل گئی کہ وہ بغیر کسی اتحاد کے حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ مرکز میں پیپلزپارٹی نوازلیگ کے وزیرِاعظم کو ووٹ دینے کااعلان کرچکی جس پر نوازلیگ نے مرکز میں میاں شہبازشریف کو وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار نامزد کردیا اور پنجاب میں مریم نوازکو وزرارتِ اعلیٰ کی اُمیدوار کے طورپر سامنے لے آئی۔ اِس اعلان کے بعد میاں نوازشریف کو چوتھی بار وزیرِاعظم بنتے دیکھنے والوں کی اُمیدوں کا خون ہوگیا اور سوشل میڈیا پر میاں نوازشریف کے چاہنے والوں نے اودھم مچادیا۔ وہ میاں صاحب کے علاوہ کسی کوبھی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پرمتمکن نہیں دیکھنا چاہتے۔ جب یہ افواہ اُڑی کے میاں صاحب سیاست سے کنارہ کش ہورہے ہیں تو کئی متوالوں نے تو باقاعدہ رونا بھی شروع کردیا۔ اُبلتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے محترمہ کلثوم نواز نے یہ ٹویٹ کیا ”وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ نوازشریف سیاست سے کنارہ کش ہورہے ہیں تو اِس میں کوئی سچائی نہیں۔ اگلے 5سال وہ نہ صرف بھرپور سیاست کریں گے بلکہ وفاق وپنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی کریں گے“۔ مریم نوازنے یہ بھی کہا ”شہبازشریف اور میں اُن کے سپاہی ہیں، اُن کے حکم کے پابند ہیں اور اُن کی سربراہی اور نگرانی میں کام کریں گے“۔ میاں صاحب کے وزارتِ عظمیٰ کا منصب نہ سنبھالنے کا دُکھ تو ہمیں بھی ہوا لیکن پھر یہ سوچ کر مطمئن ہوگئے کہ دنیا کی تاریخ ایسے قائدین سے بھری پڑی ہے جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہوتاتھا لیکن حکومتیں اُن کے اشارہئ اَبرو کی منتظر رہتی تھیں۔ میاں صاحب اگر لندن میں بیٹھ کر نوازلیگ کی کمان سنبھال سکتے ہیں تو کیا جاتی اُمرامیں بیٹھ کر نہیں سنبھال سکتے؟۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی خیالی پلاؤ پکانے والوں کی طرف۔ تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی صرف خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت ہے جہاں وہ بغیر کسی اتحادی کے اپنی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔ اِس کے سوا مرکز یاباقی تینوں صوبوں میں سے کسی میں بھی حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ تحریکِ انصاف کی عمارت ہی جھوٹ پر کھڑی ہے اور اُس کا سوشل میڈیاپر جھوٹ بِکتابھی ہے اِس لیے بیرسٹر علی گوہر اور اُن جیسے کئی دوسرے یہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ مرکز، پختونخوا اور پنجاب میں وہ حکومت تشکیل دینے جارہے ہیں۔ ایسے خیالی پلاؤ پکانے والوں سے سوال ہے کہ جب نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے ارکانِ قومی اسمبلی کی تعداد اتنی ہے کہ وہ بغیر کسی اور اتحادی کے حکومت تشکیل دے سکتے ہیں توپھر تحریکِ انصاف کی یہ بڑھکیں چہ معنی دارد۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں تو مرکز میں الحاق کر چکیں اِس کے علاوہ ایم کیوایم، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں نے بھی میاں شہباز شریف کی قیادت پراعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ پنجاب میں نوازلیگ کو ویسے ہی واضح اکثریت حاصل ہے۔ اِس کے علاوہ 10 آزاد منتخب ہونے والے ارکانِ پنجاب اسمبلی بھی نوازلیگ میں شمولیت کااعلان کرچکے۔ پھر بیرسٹر علی گوہر کسے بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں؟۔ سوال ہے تو صرف یہ کہ کیا نوازلیگ مرکزمیں کانٹوں کا تاج پہننے کے لیے تیار ہوگی یانہیں؟۔
شاید بیرسٹرگوہر کویہ توقع ہو کہ بشریٰ بی بی کے مؤکل کچھ کام دکھا جائیں۔ یہی وجہ ہوگی کہ علی گوہر، علی امین گنڈاپور اورعمرایوب کو میدان میں اُتارا گیاہے جن کے ناموں کا پہلا حرف ”ع“ ہے۔ یہی ”ع“ تحریکِ انصاف کی گزشتہ 4سالہ حکومت میں جاری وساری رہی۔ جب یہ ”ع“ پی ٹی آئی کے بانی کی وزارتِ عظمیٰ نہ بچاسکی تو پھر موجودہ ”ع“ کیا بگاڑ لے گی؟۔ ویسے آفرین ہے تحریکِ انصاف کے انتخاب پرجس نے خیبر پختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے علی امین گنڈاپور جیسے انتہائی بیہودہ اور بدتمیز شخص کا انتخاب کیا۔ وہ اپنی شکل وشباہت سے سیاستدان سے کہیں زیادہ دہشت گرد لگتا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کے لیے ایوب خاں کا پوتا عمرایوب سامنے لایا گیا۔ یہ وہ شخص ہے جو 1993ء سے لے کر 2001ء تک مسلم لیگ ن کاحصہ رہا، 2009ء تک ق لیگ میں پایا گیا، 2009ء سے 2012ء تک پیپلزپارٹی کا جیالا بننے پر فخر کرتارہا، 2012ء سے 2018ء تک پھر ن لیگ میں آگیا اور2018ء سے تاحال تحریکِ انصاف میں ہے۔ تحریکِ انصاف نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے میاں اسلم اقبال کو اُمیدوار نامزد کیا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو سانحہ 9مئی کے ٹاپ 10ذِمہ داروں میں شامل اور تاحال مفرور ہے۔ مخبوط الحواس شیرافضل مروت نے پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”9مئی دوبارہ ہویا 10بار ہو۔ یہ قیادت کا فیصلہ ہے کہ ہم لوگوں کو اُن کاحق دلاکر رہیں گے“۔ گویایہ تسلیم کرلیا گیا کہ سانحہ 9مئی کی ذمہ دار تحریکِ انصاف ہے اوروہ دوبارہ بھی ایسا کرسکتی ہے۔
قوم کو یاد ہوگا کہ 2013کے عام انتخابات کے بعد عمران خاں نے اسی طرح دھاندلی کاشور مچایا اور عین اُس دن اسلام آباد کی طرف جلوس لے کرنکل کھڑے ہوئے جب قوم یومِ آزادی کی خوشیاں منارہی تھی۔ پھرڈی چوک اسلام آباد میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی گئی، یوٹیلٹی بِلز جلائے گئے، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے گئے، وزیرِاعظم ہاؤس پرحملہ کیا گیا، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیااور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی گئی۔ یہ سب کچھ ملک وقوم سے غداری کے مترادف تھا۔ اگراُس وقت فتنے کو کُچل دیاجاتا توسانحہ 9مئی کبھی نہ ہوتا۔ پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ 9ماہ گزرنے کے باوجود تاحال سانحہئ 9مئی کے ذمہ داروں کو کچھ نہیں کہا گیا۔ تاریخِ عالم اُٹھاکر دیکھ لیجئے ایسے شَرپسندوں کو مہینوں نہیں دِنوں میں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ سانحہئ 9مئی براہِ راست پاک فوج کے خلاف کیاگیا۔ یہ پاک فوج کے خلاف صریحاََ بغاوت تھی اور جب بغاوت ناکام ہوتی ہے تو باغیوں کو نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ اُلٹ کہ مفروروں کوبھی عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔ اب صورتِ حال یہ کہ اکثریت سے کوسوں دور ہونے کے باوجود وہ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ 9مئی دوبارہ ہو یا 10بار تو اِس کے پیچھے وہ شہ ہے جو 2014ء کے دھرنے سے چلی آرہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سویلین ہویا فوجی جب اُن کا ٹارگٹ ہی پاک فوج تھاتو پھرکیا اُن کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت انکوائری نہیں ہونی چاہیے۔ کہے دیتے ہیں کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا