تازہ ترینکالم

ایران اسرائیل جنگ کا فاتح کون؟

ایران،اسرائیل اور امریکا کے درمیان 12 روزہ لڑائی کے بعد جنگ بندی ہوگئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ کا فاتح کون؟اگر ہم امریکا اور اسرائیل کی طرف سے دیکھیں تو ان کا دعویٰ ہوگا کہ ہم دونوں ملک فاتح ہیں کیونکہ جو بنیاد بنا کر ایران پرحملے کیے گئے تھے وہ ایران کا ایٹمی پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے بارے میں مغربی ممالک کو خدشات تھے کہ وہ کسی بھی لمحے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے اوراسی لیے ایران کے ایٹمی پروگرام کو برباد کرنا ضروری ہے۔
اسرائیل نے ایران پر حملوں کا آغاز فوجی قیادت اور نیوکلیئر سائنسدانوں پر حملے سے کیا تھا جس میں اس نے اعلیٰ فوجی قیادت سمیت 17 سائنسدانوں کوشہید کیاتاہم ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے میں ناکامی ہوئی۔اس دوران ایران نے میزائلوں اور ڈرونز سے پے در پے حملے کرکے اسرائیل کے کئی علاقوں کا نقشہ غزہ جیسا بنا ڈالا۔ بارہ دنوں کی لڑائی میں اسرائیلی شہریوں نے بیشتر وقت بنکرز میں گزارا جس کی وجہ سے اموات میں غیرمعمولی کمی تو دیکھنے میں آئی مگر افراتفری واضح تھی۔ اسرائیل پر ہونے والے میزائل حملوں میں 28 افراد ہلاک ہوئے۔ 3 ہزار 238 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں 23کی حالت تشویشناک ہے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران نے جنگ کے دوران اسرائیل پر 550 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تاہم ان میں سے صرف 31 میزائل آبادی والے علاقوں میں گرے۔ ایران کی جانب سے تقریباً ایک ہزار ڈرونز بھی لانچ کیے گیے جن میں صرف ایک ڈرون بیت شان علاقے میں ایک گھر سے ٹکرایا، میزائلوں اور ان کا راستہ روکنے والے انٹرسیپٹرز کے ٹکروں سے بھی مختلف مقامات پر جزوی نقصان پہنچا۔ میزائل اور ڈرون حملوں سے اسرائیل میں املاک کو ہونے والے نقصانات کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 1.47 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
ایک بات جو بہت اہم ہے کہ ایران اسرائیل کی جنگ نے یہ بھی ثابت کردیا کہ کہ ایران امریکہ اور اسرائیل سے نہ ڈرا اور نہ جھکا۔ ایران میں حکومتی پالیسی کی حمایت بڑھی جبکہ اسرائیل کے بڑے میڈیا گروپس نے وزیراعظم نیتن یاہو کی پالیسی پر شدید تنقید کی۔خود امریکی صدربھی اسرائیل سے ناخوش ہیں۔ جنگی امور سے متعلق ماہرین کا کہنا ہیکہ اسرائیل نے امریکا کو اس جنگ میں جھونکا مگر اصل ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا۔
ایران کو دیگر ممالک کی طرف سے حمایت حاصل جبکہ اسرائیل سوائے امریکہ کے تنہا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کی مدد کے لیے جنگ میں کودنا پڑا اور ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرکے اسرائیلی وزیراعظم سے منوایا کہ امریکا کے بغیر یہ کام ناممکن تھا۔جس پر اسرائیل نے اپنے ملک میں ٹرمپ کے شکریہ کے پوسٹر تو لگوا دیے مگر رسوا اس کو بھی کرا دیا۔خود امریکی میڈیا کادعویٰ ہے کہ ابتدائی امریکی انٹیلی جنس اندازے کے مطابق ایران پر امریکی حملوں میں جوہری تنصیبات تباہ نہیں ہوئیں، امریکی حملوں سے ایرانی جوہری پروگرام صرف کچھ مہینوں کے لیے پیچھے ہوگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ایران سپر پاور کے سامنے فاتح ٹھہرا۔جس کے ثبوت کچھ یوں ہیں سب سے پہلے کہ دشمن ممالک ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکام رہے۔ امریکا اور اسرائیل اپنا اہم ہدف یعنی ایران کا ایٹمی پروگرام بند کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہی نہیں ایران کے پاس موجود چار سو کلوگرام افزودہ یورینئیم کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا۔جبکہ اسرائیل نے امریکہ اور قطر کے ذریعے جنگ بندی کراکے اپنی جان چھڑائی ہے۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی ٹرمپ نوبل انعام کا حقدار ہوسکتا ہے؟ جس نے ایران اسرائیل کی جنگ کرائی اور پھر خود اس جنگ میں برابر کا شریک ٹھہرا؟ اگر ایسے مختلف ممالک کو جنگ پر اُکسا کر اور جنگ کراکے پھر جنگ بندی کراکے نوبل پرائز ملتا ہے تو پھر یہ بہت غلط روایت ہوگی۔ یہ تو ایسے ہی ہوگا کہ بڑی بھیڑیں چھوٹی بھیڑوں کو کھا کر اپنی بادشاہیت ہمیشہ قائم رکھیں گی۔

Related Articles

Back to top button