
صدرٹرمپ نے دعویٰ کیاہے کہ، سعودی عرب جلدابراہیمی معاہدے میں شامل ہوجائے گاجس کے بعدسارے دوست جانناچاہتے ہیں کہ آخرابراہیمی معاہدہ کیاچیزہے۔اس معاہدے کے نکات کیاہیں اوراس کی ضرورت کیاہے۔امریکہ اس معاہدے کواتنی اہمیت کیوں دیتاہے اورصدر ٹرمپ خاص طورسعودی عرب کاذکرکیوں کررہے ہیں۔2020 میں سامنے آنے والا،ابراہیمی معاہدہ، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک ایسی پیش رفت تھی جس نے نہ صرف عرب دنیا میں نئی بحث چھیڑ دی بلکہ پورے عالمِ اسلام کی سفارتی ترجیحات کو نئی سمت میں دھکیل دیا۔یہ معاہدہ بنیادی طور پر،اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان محض رسمی تعلقات قائم کرنے کا فارمولا نہیں بلکہ ایک گہرامنصوبہ ہے، جسے امریکہ نے باضابطہ طور پر،امن کی نئی شروعات قرار دیا۔ پہلا معاہدہ،متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہوا، اس کے فوراً بعد بحرین، سوڈان اور مراکش بھی اس سفارتی حکمت عملی کا حصہ بن گئے۔ معاہدے کو،ابراہیمی،اس لیے کہا گیا کہ تین بڑے مذاہب،یہودیت، عیسائیت اور اسلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مشترکہ روحانی پیشوا مانتے ہیں، ناقدین کے مطابق اس معاہدے میں مذہبی احترام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرکے بڑی چالاکی گئی۔ابراہیمی معاہدہ بظاہر امن، اقتصادی ترقی، تجارتی تعاون اور خطے میں استحکام لانے کے دعوے سے شروع ہواپر اس کے پس منظر میں کئی ایسے عوامل شامل ہیں جنہوں نے اسے محض سفارتی قدم کے بجائے ایک بڑی،جیو پولیٹیکل تبدیلی بنا دیا۔ امریکہ کی اصل خواہش یہ تھی کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی حیثیت کو مزید مضبوط کیا جائے، ایران کا اثر محدود کیا جائے اور عرب دنیا کو ایک نئے اسٹریٹجک بلاک کے تحت لایا جائے۔ دوسری طرف خلیجی ریاستیں، خاص طور پر یو اے ای اور بحرین، ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پہلے ہی پریشان تھیں، لہٰذا انہیں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ قربت ایک حفاظتی حصار محسوس ہوئی۔اس معاہدے کے اہم نکات میں،سفارتی تعلقات کی بحالی، کاروباری اور ٹیکنالوجی تعاون، سیکیورٹی معاہدے، مشترکہ سرمایہ کاری اور براہِ راست فضائی روابط شامل ہیں۔اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ مغربی کنارے کے علاقوں پر الحاق کا فیصلہ،فی الحال، موخر کرے گاجبکہ حقیقت میں یہ اعلان سیاسی تھا، زمینی سطح پر فلسطینی علاقوں پر بستیوں کی تعمیر بدستور جاری رہی۔ ناقدین کے مطابق اسرائیل نے کسی بھی بنیادی مطالبے پر رعایت نہیں دی، البتہ معاہدے کے ذریعے اسے کئی عرب ممالک کی سفارتی اور اقتصادی حمایت حاصل ہوگئی۔سب سے بڑی بحث مسلم دنیا کے اس ردِ عمل پر ہوئی جو اس معاہدے کے اعلان کے ساتھ ہی سامنے آیا۔ سعودی عرب، پاکستان، قطر، ترکیہ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ایران نے اس معاہدے کو مختلف زاویوں سے دیکھا، اور یہی اختلاف اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ صرف سفارتی نہیں بلکہ مذہبی، تاریخی اور اخلاقی حیثیت بھی رکھتا ہے۔سعودی عرب نے اس معاہدے میں شمولیت نہیں کی اور اپنی پالیسی حد درجہ محتاط رکھی۔ سعودی موقف کی بنیاد 2002کے عرب امن منصوبے پر ہے جس کے مطابق اسرائیل کی عرب دنیا سے مکمل قبولیت صرف اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینیوں کو آزاد ریاست دی جائے، 1967 کی سرحدیں بحال کی جائیں اور القدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔ سعودی قیادت جانتی ہے کہ اسرائیل سے بغیر کسی بنیادی رعایت کے تعلق قائم کرنا نہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ سیاسی بے وفائی ہوگی بلکہ داخلی سطح پر بھی شدید ردِ عمل پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے سعودی حکمتِ عملی مرحلہ وار معمولات پر مبنی ہے۔ وہ اس امکان کو ختم نہیں کرتا کہ مستقبل میں اسرائیل سے تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں پر اس کے لیے علاقائی توازن، فلسطینی رضا مندی اور امریکی ضمانتوں کا حصول بنیادی شرط ہے۔پاکستان نے اس معاہدے کو سختی سے مسترد کیا اور واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی امکان نہیں۔پاکستان کا موقف دو نکات پر قائم ہے۔اول، فلسطینی عوام کا حقِ خودارادیت غیر متنازع اور بنیادی انسانی حق ہے۔ دوم، القدس مسلمانوں کا شعوری اور مذہبی مرکز ہے، لہٰذا اسرائیلی قبضے کو قبول کرنا اسلامی تاریخ اور پاکستان کی نظریاتی بنیاد کے خلاف ہے۔ پاکستان کے عوامی جذبات بھی اسی موقف کے حامی ہیں، اس لیے کوئی بھی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ پاکستان عالمی فورمز پر دو ریاستی حل اور فلسطینی حقِ خودمختاری کا سب سے مضبوط مدافع رہا ہے۔قطر نے اس معاہدے کو فلسطینیوں کے ساتھ سیاسی بے وفائی قرار دیا۔ قطر کی پالیسی ہمیشہ سے حماس اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے قریب رہی ہے، اس لیے اس نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تعلق سے انکار کیا۔ ترکی نے بھی اگرچہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں پر اس نے معاہدے پر شدید تنقید کی اور عرب ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کو نظرانداز نہ کریں۔ ایران نے اس معاہدے کو براہِ راست امریکی،اسرائیلی منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خلیجی حکمرانوں کی،خیانت،ہے اور اس سے خطے میں تقسیم بڑھے گی۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا نے بھی اس معاہدے کی مخالفت کی اور فلسطینی ریاست کی آزادی کو بنیادی شرط قرار دیا۔ان تمام ردِ عمل نے واضح کر دیا کہ ابراہیمی معاہدہ محض سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ مسلم دنیا کے سیاسی اتحاد، فلسطینی کاز اور مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی ڈھانچے پر گہرا اثر ڈالنے کامنصوبہ ہے۔ معاہدہ جہاں طرف اسرائیل کی سفارتی حیثیت مضبوط کرتا ہے، وہیں فلسطینیوں کی جدوجہد نسبتاً کمزور ہوتی دکھائی دیتی ہے، کیونکہ عرب دنیا میں وہ متحدہ حمایت باقی نہیں رہی جو دہائیوں تک اسرائیلی قبضے کے خلاف مشترکہ مزاحمت کا محور تھی۔اس معاہدے کے وسیع اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کے لیے اسرائیل جدید ٹیکنالوجی، دفاعی تعاون اور مغربی طاقتوں تک براہِ راست رسائی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی عوام مایوسی کا شکار ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ عرب دنیا اب ان کے حق آزادی کی جدوجہد سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایران،اسرائیل کشیدگی مزید بڑھی ہے، اور نئی سفارتی صف بندیاں سامنے آ رہی ہیں جن میں اسرائیل اور عرب اسرائیل مخالف طاقتوں کے مقابل ایک نئے اتحاد کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ابراہیمی معاہدہ بہت بڑا سفارتی منصوبہ ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی ساخت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔مسلم دنیاکے سامنے سب سے بڑا سوال اب بھی تشنہ ہے۔کیا یہ معاہدہ مسئلہ فلسطین کو حل کرے گا یا اسے مزید پیچیدہ بنا دے گا؟مسلم دنیا کی اکثریت کا خیال ہے کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا، اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ یہ خطے میں امن کا ذریعہ بھی نہیں بن سکتا۔سعودی عرب سمیت کسی بھی مسلم ریاست کی جانب سے ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کاسیدھاسیدھامطلب ہوگاکہ اسرائیل کی ریاست کوامریکی اوراسرائیلی منصوبے کے مطابق قبول کرلیاجائے۔صدر ٹرمپ کے دعووں کے مطابق سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوجاتاہے تویقینی طورپرمسئلہ فلسطین کاحل مزیدپیچیدہ ہوجائے گااورسعودی حکمران خاندان کیلئے مسلم دنیاکے دلوں میں نفرت کااحساس پیداہوگا۔




