عام انتخابات کی آمد آمد
عام انتخابات 2024ء میں صرف ایک ماہ باقی ہے لیکن تاحال انتخابی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکیں۔ شائد اِس کی وجہ یہ ہو کہ عام انتخابات کے التوا کی سرگوشیوں میں متوقع اُمیدواران گومگو کی کیفیت میں ہوں۔ اِسی سلسلے میں ایک شرارت یا سازش جمعہ 5 جنوری کو سینٹ کے اجلاس میں کی گئی لیکن ہمارے خیال میں اُس کا 8 فروری کے انتخابات پر کچھ اثر نہیں ہوگا البتہ بین الاقوامی میڈیا میں بدنامی ضرور ہوئی۔ ہوا یوں کہ سینٹ کے اجلاس میں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر دلاورخاں نے اچانک عام انتخابات کے التوا کی قرارداد پیش کردی جسے کثرتِ رائے سے منظور بھی کرلیا گیا اور فوری طور پر نوٹیفیکیشن جاری کرکے منظوری کی کاپی صدر، وزیرِاعظم، الیکشن کمیشن، وزارتِ قانون اور پارلیمانی امور کو بھیج بھی دی گئی۔ اِس سازش میں چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا ہاتھ صاف نظر آتاہے کیونکہ التوا کی یہ قرارداد سینٹ کے 97 ارکان میں سے صرف 14 ارکان کی موجودگی میں پیش کی گئی۔ نوازلیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے اِس کی شدید مخالفت کی جبکہ پیپلزپارٹی کے بہرہ مند اور پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ نے خاموشی اختیار کی۔ صادق سنجرانی قرارداد کی منظوری کے فوراََ بعد اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرکے یہ جا وہ جا۔ نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی، تینوں اِس قرارداد کی مخالفت میں سامنے آچکیں جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بَروقت انتخاب کی قرارداد سینٹ میں جمع بھی کروادی۔ نوازلیگ کے خواجہ آصف نے کہا ”سردی میں نہانا تو مؤخر ہوسکتا ہے لیکن الیکشن نہیں“۔ ویسے بھی 8 فروری کے انتخابات پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ یکسو ہیں اِس لیے صادق سنجرانی اور حواریوں کی یہ سازش ثمرآور نہیں ہوسکتی۔
اِس وقت نوازلیگ ڈرائینگ روم کی سیاست میں مصروف اور جوڑتوڑ کے لیے مستعد۔ پیپلزپارٹی کے بلاول زرداری وزارتِ عظمیٰ کاشوق دل میں سجائے لاہور میں براجمان۔ وہ لاہور کے حلقہ NA-127 سے اُمیدوار اور اُنہوں نے اِسی سلسلے میں رائیونڈ میں ایک جلسہ بھی کرڈالا جہاں حاضرین کی تعداد انتہائی کم۔ ہم نے تو سُناتھا کہ اتحادی حکومت ملک وقوم کی بہتری کے لیے اگلا پانچ سالہ دَور بھی مل کر گزارے گی۔ میاں شہبازشریف اِس کا باربار اعلان بھی کرتے رہے لیکن ”خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا، جوسُنا افسانہ تھا“۔ جونہی عام انتخابات کی ہوائیں چلنے لگیں سب خزاں کے پتّوں کی طرح بکھرنے لگے۔ وہ بلاول زرداری جو ”شہبازسپیڈ“ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے آج سوال کرتے ہیں کہ ڈیڑھ سالہ اتحادی حکومت میں وزیرِاعظم شہبازشریف نے آخر کیا ہی کیا ہے؟۔ اِس نوجوان کی غلط فہمی کا اندازہ اِس بات سے لگا لیجئے کہ وہ کہتا ہے کہ انتخابات میں ناکامی کے بعد نوازشریف کہیں گے ”مجھے کیوں بُلایا“۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ کہ نوازلیگ دو تہائی اکثریت کی دعویدار۔ ہمارے خیال میں نوازلیگ کی دوتہائی اکثریت تو ممکن نہیں البتہ پنجاب میں اُسے غالب اکثریت ملنا اظہرمِن الشمس۔ میرے اِس تجزیے کی بنیاد یہ کہ 2018ء کے عام انتخابات میں جب میاں نوازشریف اور محترمہ مریم نواز جیل میں تھے اور اسٹیبلشمنٹ عمران خاں کو وزیرِاعظم بنانے پر تُلی بیٹھی تھی تو اُس وقت بھی جنرل قمرجاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کی بھرپور کوششوں اورآرٹی ایس بٹھاکر بھی پنجاب میں نوازلیگ اکثریت لے گئی۔ اب میاں نوازشریف اور مریم نواز میدانِ عمل میں ہیں۔عمران خاں کا ساڑھے تین سالہ بدترین دَورِحکومت کسی کو نہیں بھولا اور”بندیالی کورٹ“ کی عدم موجودگی کے علاوہ گود میں اُٹھانے والے قمرجاوید باجوہ اور فیض حمید بھی موجود نہیں۔ یہ بھی روزِروشن کی طرح عیاں کہ عمران خاں کے دَورِحکومت کی تمام تر سختیوں کے باوجود میاں نوازشریف کے سبھی ساتھی اپنے قدموں پر ڈَٹ کر کھڑے رہے۔ اِس لیے جب میاں صاحب الیکشن کیمپین کے لیے باہر نکلیں گے تو سارے جعلی تجزیے جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نوازلیگ خاموش نہیں بیٹھی ہوئی۔ وہ بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخواہ میں قابلِ ذکر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرچکی۔ اِس لحاظ سے نوازلیگ کا اتحادیوں کے ساتھ مل کر دوتہائی اکثریت لینا ناممکن بھی نہیں۔
بلاول زرداری اور میاں نوازشریف کے علاوہ وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار عمران خاں بھی ہیں۔ بلاشبہ سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی کے درمیان یہی محسوس ہوتاہے کہ تحریکِ انصاف پورے پاکستان میں موجود ہے لیکن ووٹ عوام نے دینے ہیں صرف یوٹیوبر نے نہیں جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اِن یوٹیوبرز کی قابلِ ذکر تعداد بیرونی ممالک میں موجود ہے جو ”عشقِ عمران“ میں اتنی بھی اندھی نہیں ہوئی کہ ووٹ کاسٹ کرنے پاکستان چلی آئے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ 2013ء کے عام انتخابات میں سوشل میڈیاپر تحریکِ انصاف کا اتناہی شور تھا جتنا آج مگر تب بُری ہزیمت حصے میں آئی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی اِسی سوشل میڈیا کا جادو سَرچڑھ کر بول رہاتھا، اسٹیبلشمنٹ مکمل طورپر عمران خاں کی پُشت پرتھی لیکن جب نتائج سامنے آنے لگے تو اسٹیبلشمنٹ کو گوہرِ مقصود ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا اِس لیے آرٹی ایس کی خرابی کا بہانہ بناکر نتائج روک دیئے گئے اور بے شمار پولنگ ایجنٹس کو نتائج کا فارم 45 دینے سے انکار کردیا گیا۔ ایسی کھُلی دھاندلی کے باوجود تحریکِ انصاف قطعی اکثریت حاصل نہ کرسکی (اُس کے صرف 116اُمیدوار کامیاب ہوئے)۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا چلا اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد اُمیدواروں کو دھکیل کر تحریکِ انصاف کا اتحادی بنایا گیااور یوں عمران خاں محض 4 ووٹوں کی اکثریت سے وزیرِاعظم منتخب ہوا۔ اب جنرل باجوہ ہے نہ فیض حمید، بندیالی کورٹ ہے نہ جسٹس ثاقب نثاراور جسٹس آصف سعید کھوسہ۔ تحریکِ انصاف کے اِدھراُدھر سے اکٹھے کیے گئے جیتنے والے گھوڑے بھی ساتھ چھوڑ چکے اور بچے کھچے یاتو سیاست سے توبہ کر چکے یا مفرور۔ اِس کے علاوہ تحریکِ انصاف چھوڑنے والے الیکٹیبلز پنجاب میں عبدالعلیم کی صدارت میں آئی پی پی اور خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کی سربراہی میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین بنا چکے۔ خود عمران خاں جیل میں کئی اوپن اینڈ
شَٹ کیسز کا سامنا کرتے ہوئے۔ تحریکِ انصاف سے بلّے کا نشان چھِن چکااور الیکشن کمیشن تحریکِ انصاف کے پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے چکی۔ ایسے میں عمران خاں کی بڑھکیں ناقابلِ یقین۔
اڈیالہ جیل میں توہینِ الیکشن کمیشن اور توہینِ الیکشن کمشنر کیس میں فردِجرم عائد کرنے کے دوران عمران خاں نے الیکشن کمیشن کے 4 ارکان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے کہا ”میں تم سب کی شکلیں پہچانتا ہوں اور نام بھی معلوم ہیں“۔ اقتدار میں آکر تم پر آرٹیکل 6 لگاؤں گا۔ تم جس کے کہنے پر یہ سب کر رہے ہو، وہ تمہیں بچا بھی نہیں سکے گا“۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے ارکان عمران خاں کی اِس دھمکی پر حیران رہ گئے لیکن ہمارے خیال میں یہ ایسے انتہائی مایوس انسان کے الفاظ تھے جو چاروناچار دھمکیوں اور گالیوں پر اُتر آتا ہے۔ اُن پر توشہ خانہ، 190 ملین پاؤنڈ، القادریونیورسٹی اور 9 مئی جیسے کیسز ہیں جن سے مفر ناممکن۔ اِس کے علاوہ سائفر اور ممنوعہ فنڈنگ جیسے کیسز کی تلوار بھی سرپر لٹک رہی ہے اِس لیے سوائے دھمکیوں کے اُن کے پاس بچاہی کیا ہے۔