تازہ ترینپروفیسر رفعت مظہرکالم

قلابازیاں ہی قلابازیاں

شکریہ ارشد ندیم کہ آپ نے پیرس اولمپک میں 116سالہ ورلڈ ریکارڈ توڑتے ہوئے تاریخ رقم کرکے پوری قوم کے چہرے پر خوشیاں بکھیر دیں۔ اُس نے 92.97میٹرزکی جیولین تھرو کی جو ایسا ورلڈ ریکارڈ ہے جسے توڑنا شاید ناممکن۔ اب اُس کی وطن واپسی پرتاریخی استقبال کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ ہمیں 1992کا وہ کرکٹ ورلڈکپ بھی یاد ہے جب پوری قوم کرکٹ ٹیم کے استقبال کے لیے مال روڈلاہور پراُمڈ آئی تھی۔ ایسے ہی تاریخی استقبال کی تیاریاں اب بھی جاری ہیں لیکن ہمارے دماغ کے اندر بیٹھا ابلیس لعین باربار کچوکے لگارہا ہے کہ ورلڈکپ کی کامیابی توپوری ٹیم کی محنتوں کاثمر تھی، یہ الگ بات کہ سارا ثمر عمران خاں اپنی جھولی میں ڈال کر وزیرِاعظم بَن بیٹھا۔ ارشدندیم کاتو اولمپکس میں تاریخ ساز انفرادی گولڈمیڈل ہے، پھر کہیں ایسانہ ہوکہ ہمارا یہ قومی ہیرو بھی وزارتِ عظمیٰ کادعویٰ کر بیٹھے۔ یہ محض شیطانی وسوسے ہیں اِس لیے قارئین اِن سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اِس قومی ہیروکا بھرپور استقبال کریں۔ ایک اوربات یہ کہ مُرشد عطاء الحق قاسمی کے خلفِ رشید یاسر پیرزادہ تازہ بتازہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈی جی مقرر ہوئے ہیں۔ اُن کاسپورٹس بورڈ میں قدم رکھنا مبارک ثابت ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کے پاس بھی بشریٰ بی بی کی طرح کوئی ”موکل شعکل“ ہوں جن کے زورپر یہ گولڈ میڈل حاصل ہوا۔ اگرایسی ہی بات ہوتو پھر ہمارے عزیز یاسرپیرزادہ کی بھی وزارتِ عظمیٰ تو بنتی ہے۔ اِس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں اگر بقول بلاول بھٹوزرداری ”سیٹیں ٹافیوں کی طرح“ بانٹی جاسکتی ہیں تو پھر وزارتِ عظمیٰ جیسی ”ریوڑی“ عطا کرنا عدلیہ کے لیے کون سی بڑی بات ہے۔ ویسے اگر ”بابا رحمتا“ سپریم کورٹ میں موجود ہوتاتو کامیابی پکّی تھی۔ ہم نے ابھی تک یاسر پیرزادہ سے تو مشورہ نہیں کیالیکن اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ اگر دَرِسپریم کورٹ سے بِن مانگے مُرادیں پوری ہوسکتی ہیں تو وزارتِ عظمیٰ کیوں نہیں؟۔
معززقارئین! ہم نے مُرشد عطاء الحق قاسمی کے اتباع میں مزاحیہ کالم نگاری شروع کی اور ایک عرصے تک اِسی میں ”جھَک مارتے“ رہے۔ جب بات نہ بنی توسوچا کہ چلو سیاسی کالم لکھتے ہیں۔ سیاسی کالم لکھتے ہوئے اِک عمربیت چلی لیکن نتیجہ وہی ”ڈھاک کے تین پات“۔ کئی دفعہ سوچاکہ چلو لاڈلے کے حق میں کالم لکھ کر دیکھتے ہیں، شاید وہاں سے ہی ”کچھ“ مِل جائے لیکن بَدبخت ضمیر تلوار سونت کرسامنے آن کھڑا ہوا۔ اب ہم اِس مخمصے میں ہیں کہ نوازلیگ گھاس ڈالتی نہیں، لاڈلے کے حق میں ضمیر کالم نہیں لکھنے دیتا تو اب ہم جائیں تو جائیں کہاں۔ کل ایک محترمہ کاوی لاگ نظرسے گزرا۔ اُس نے مکمل ثبوتوں کے ساتھ وطنِ عزیزکے اُن نامی گرامی لکھاریوں کے نام بتائے جو درِملک ریاض سے مستفید ہوچکے ہیں۔ تب ہم نے سوچاکہ چلوملک ریاض کے حق میں کالم لکھ کر دیکھتے ہیں لیکن جب تحقیق کی توپتہ چلا کہ ایک تو وہ خود زیرِعتاب ہے اور دوسرے وہ لاڈلے کی خدمت کرتے کرتے تھک بلکہ ”ہپھ“ چکاہے اِس لیے اب اِن تلوں میں تیل نہیں۔ وجہ صاف ظاہرہے کہ اگر وہ اب بھی لکھاریوں کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوتاتو نامی گرامی لکھاریوں کے نام کبھی ظاہر نہ کرتا۔ اب تھک ہارکر ہم نے سوچا ہے کہ چلوہم اپنی سیاسی جماعت بناکر دیکھتے ہیں۔
اِس سلسلے میں جب ہم نے اپنے میاں سے مشورہ کیا تواُن کا فلسفیانہ جواب تھاکہ ضرور سیاسی جماعت بناؤ مگر اس کانام ”تحریکِ انتشار“ رکھنا۔ ہم نے چونک کر پوچھاکہ کیوں؟۔ اُنہوں نے جواب دیاکہ اگر تحریکِ انصاف اپنی انتشاری سیاست سے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچ سکتی ہے توتم کیوں نہیں؟۔ ہم نے جواب دیا ”کیا آپ نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کاتازہ بیان نہیں پڑھا“؟۔ اُنہوں نے سوال کیاکہ کون سا بیاں؟۔ ہم نے جواب دیاکہ 8اگست کو جنرل صاحب نے علماء، مشائخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جُرم فسادفی الارض ہے، ہم کہتے ہیں کہ احتجاج کرناہے تو ضرور کریں لیکن پُرامن رہیں۔ اگر کسی نے پاکستان میں انتشار کی کوشش کی تورَبِ کریم کی قَسم ہم اُس کے آگے کھڑے ہوں گے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ اعتدال پسندی کومعاشرے میں واپس لائیں اور فسادفی الارض کی نفی کریں“۔ میرے میاں نے کہا کہ جنرل صاحب کایہ بیان تواُن کی نظر سے نہیں گزرا لیکن پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ9مئی پر فوج کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ آئے گی۔ جنرل احمد شریف نے اُسی بریفنگ میں یہ گلہ بھی کیا ”قانون ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف مؤثر کام نہیں کررہا۔ جو ڈیجیٹل دہشت گرد باہر بیٹھ کربات کر رہے ہیں وہ بے ضمیر لوگ ہیں جو پیسوں کے لیے ملک کے عوام اور اداروں کے خلاف کام کرتے ہیں“۔ میرے میاں نے یہ بھی کہا کہ جب فوج کھُل کریہ بیان دے رہی ہے توپھر ہماری حکومت ستّو پی کر کیوں سوئی ہوئی ہے؟۔ ہمارے پاس کیونکہ اِس کا کوئی جواب نہیں تھا اِس لیے ہم نے بات گھماتے ہوئے کہاکہ اصل موضوع کی طرف آئیں اور یہ بتائیں کہ ہماری سیاسی جماعت کانام تحریکِ انتشارکیوں اور کیا پاک فوج کے اِس بیان کے بعد بھی ہماری جماعت کا نام یہی ہونا چاہیے؟۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ ”سَرمنڈاتے ہی اولے پڑے“ کے مصداق اِدھر ہم سیاسی جماعت بنائیں اور اُدھر فوج کا ڈنڈا چل جائے۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟۔ زیادہ سے زیادہ جیل ہی چلی جاؤگی۔ میں نے کہاکہ نہ تو میں عدلیہ کے ایک قابلِ ذکر گروپ کا ”کَرش“ ہوں اور نہ ہی مجھے جیل میں وہ سہولیات میسر ہوسکتی ہیں جو لاڈلے کوہیں بلکہ یہاں تک کہ شایدہی پاکستان کی تاریخ میں ایسا وی وی آئی پی مجرم گزراہو جس کی سہولت کے لیے جیل کی 6بیرکیں توڑی گئی ہوں جو صبح وشام دیسی گھی میں دیسی مرغی اور دیسی بکرے کی ”پُٹھ“ کی بوٹیاں ڈکارتا ہوا قوم کا لگ بھگ 40ہزار روپیہ ہضم کرچکا ہو۔ جس کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈ اور صحت کے لیے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم متعین ہو۔ جسے ورزش کے آلات مہیا کیے جاتے ہوں اور جس کے کھانے کی چیکنگ پر ڈاکٹراور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل متعین ہوں۔ جسے نہ صرف جیل میں صحافیوں سے گفتگو کی سہولت حاصل ہو بلکہ بین الاقوامی جریدوں میں اُس کے انٹرویوز بھی چھپ رہے ہوں۔ سب سے بڑھ کریہ کہ جواپنی زبان سے اقرار کرے کہ اُس نے اپنی گرفتاری کی صورت میں حواریوں کوجی ایچ کیوکے سامنے احتجاج کرنے اور زمان پارک میں پولیس پرپٹرول بم پھینکنے کاحکم دیا ہو۔ اِس کے باوجود حکمران خاموش اور ”ٹُک ٹُک دیدم دَم نہ کشیدم“ کی عملی مثال۔ ہم نے کہاہم ”کس کھیت کی مولی“ ہیں جو ہمیں اِن سہولیات میں سے کوئی ایک سہولت بھی میسر ہو۔ اِس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے قیام سے توبہ ہی بھلی۔
حرفِ آخر یہ کہ چونکہ عشروں سے ہمارے ذہن میں سیاست کاکیڑا کُلبلا رہا ہے اِس لیے ”چور چوری سے جائے، ہیراپھیری سے نہ جائے“ کے مصداق ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے۔ اِس لیے یہ طے کہ اب ہم بھی لال حویلی والے کی طرح سیاسی پیشین گوئیاں کیا کریں گے۔

Related Articles

Back to top button