
گذشتہ شپ کوئٹہ سے پنجاب آنے والے پنجابی مسافروں کو دہشت گردوں و شدت پسندوں نے این اے 50 سی پیک روڈ پر ضلع ژوب کے علاقے سرہ کٹی کے علاقے میں دو بسوں سے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد 9 افراد کو اتار کر قریبی نالے کے پاس لے جا کر اپنی بدترین اور وحشت ناک بربریت کا نشانہ بنایا ڈالا گیا مسلح افراد نے شاہراہ پر پہلے سے ناکہ لگا رکھا تھا بربریت کی بھینٹ چڑھنے والے تمام مسافر مزدور پیشہ اور کوئٹہ سے گھر واپس لوٹ رہے تھے ہلاک ہونے والوں میں دو حقیقی بھائی عامر نذیر اور جابر نذیر بھی شامل تھے جو اپنے باپ کی نمازہ جنارہ میں شرکت کے لیے موت کی شاہراہ پر نکلے۔ انہی میں کامونکی کا رہنے والا صابر بھی شامل تھا جو گذشتہ 15 سال سے کوئٹہ میں بارورچی کا کام کر رہا تھا چار بچوں کا باپ اپنی اہلیہ اور بچوں سے ملنے کی خاطر بس میں سوار ہوا تھا۔ یہ شاہراہ کوئٹہ سے قلعہ سیف اللہ کے قریب ڈیرہ غازی خان جانی والی شاہراہ سے الگ ہو جاتی ہے سی پیک شاہراہ ہونے کی وجہ مسافروں کی زیادہ تر گاڑیاں ادھر سے ہی گذرتی ہیں اس ماتم زدہ واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا دہشت گرد انسان نہیں بلکہ بزدل اور درندے ہیں شناخت کے بعد معصوموں کا قتل ناقابل معافی جرم ہے ریاست ان قاتلوں کو زمین کے اندر بھی چھپنے نہیں دے گی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسے انڈیا کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کی کاروائی قرار دیا اور کہا دہشت گردوں نے بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر بدترین بربریت کا مظاہرہ کیا ہے ان کے آلہ کاروں کی ہر سازش کو قوم کی مدد سے کچل دیں گے جمعرات کو کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ انڈیا حمایت یافتہ اور اسپانسرڈ پراکیسز کے خلاف ہر سطح پر فیصلہ کن اور جامع کاروائیاں جاری رکھنا نا گزیر ہیں جی یہ کاروائیاں بروقت کریں ہر ماہ یا دو ماہ بعد بلوچستان میں پنجابیوں کے خون کی ہولی کھیلنا عجب تماشہ بن چکا ہے ہم لسانیت کے بہت خلاف ہیں اس کو ہوا بھی نہیں دینا چاہتے عام بلوچی بھائیوں کے ساتھ کنارہ بھی نہیں چاہتے مگر سوال پیدا ہوتا ہے پنجابی جائیں تو کدھر جائیں بلوچستان سمیت سندھ اور خیبر پختونخواہ کے لوگ سب کام پنجاب میں کرتے ہیں پنجاب میں ان کے وسیع کاروبار ہیں مگر پنجاب کا ایک مزدور بھی انہیں قبول نہیں کس قدر ستم ظریفی ہے کہ کبھی زائرین کبھی پنجابی سیکیورٹی اہلکار کبھی حجام کبھی نانبائی و دیگر مزدور ہی ان کی بھینٹ چڑھتے ہیں کیا پنجابی پنجاب سے کہیں نہ جائیں باقی ملک ان کے لیے شجر ممنوعہ ہے بلوچستان میں ہونے والی بربریت سے پنجابی جنازے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں ان کے کاندھے شل ہو چکے ہیں آنکھیں حیرانیت اور ویرانیت کا شکار ہیں کس کا باپ کسی کی ماں کسی کا بیٹا خون کا حصہ بن گیا پنجابیوں سے اتنی نفرت کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد انہیں گریبان سے پکڑ کر دھکے دیتے ہوئے بس سے اتارا جاتا ہے پھر ان نہتے بے گناہ غریب معصوموں کو گولیوں سے بھون ڈالا جاتا ہے یہ آگ کون پھیلا رہے ہیں ؟ اس کی روک تھام کسے اور کیسے کرنی ہے؟ پنجابیوں کو تحفظ کیسے فراہم کرنا ہے یہ سب ریاست کا کام ہے پڑوسی دشمن ملک بلوچی انتہا پسند تنظیموں کے ذریعے ایسے خطرناک کام میں کامیاب ہوتا جا رہا کہ یہ دھرتی خون سے رنگ جائے گی پنجابی بہت لاشیں وصول کر کے بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں مگر پنجاب دشمنی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے دریائے ژوب کنارے آباد ژوب شہر کوئٹہ سے ڈیرہ اسماعیل خان آنے والی این اے 50 سی پیک کی 210 کلومیٹر طویل ایک اہم ترین شاہراہ ہے ژوب بھی چھاونی۔ چھوٹا سا ائیر پورٹ ریلوے اسٹیشن سی ایم ایچ سمیت بہت کچھ ہے ژوب صدیوں سے بلوچستان کجی کاریزوں کے حوالے سے شہرت یافتہ ہے جس کا نام 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا جس کا مطلب ہے ابلتا ہوا پانی ہے کیونکہ اس کی کاریزوں سے پانی ابل ابل کر باہر اتا تھا اس شہر کا پرانا نام اپوزئی ہے سی پیک کے حوالے سے یہ اہم مقام چین اور گوادر کے عین وسط میں واقع ہے زیادہ تر کھیتران اور دیگر مری و بگٹی قبائل سے اباد یہ شہر افغانستان کے بہت نزدیک ہے یہ علاقہ انتہائی دشوار گزار ہے ژوب کی سرحدیں ڈیرہ اسماعیل خان شمالی وزیرستان اور افغانستان سے ملتی ہیں گذشتہ سال اپریل میں ضلع نوشکی میں منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والےنو مسافروں کو شناخت کے بعد خون میں نہلایا گیا دہشتگرد تنظیم بی ایل اے نے یہ کاروائی نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر آپریشن ہیروف کے نام سے کی اسی سال اگست میں ضلع موسیٰ خیل کے علاقے میں متعدد بسوں کو روک کر شناخت کے بعد 22 پنجابیوں کو قتل کیا گیا یہی واقعات قلات اور ضلع کھچی میں بھی ہوئے اگست میں کل 38 شہری اور 10 فوجی اہلکاروں کو اسی طریقے سے شہید کیا گیا رواں برس کوئٹہ سے جنوب مشرق میں تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر دور بارکھان کے علاقے میں 7 افراد کو بسوں سے اتار کا درندگی کا نشانہ بنایا گیا ژوب والے المناک واقعہ کے قریبی ضلع موسیٰ خیل میں اگست میں شدت پسندوں نے 22 افراد کو قتل کیا سب پنجابی تھے اسی سال 31 جنوری کو پنجگور میں کوئٹہ کراچی شاہراہ ہر کوچ پر فائرنگ سے 17 سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا ان میں بھی مجموعی تعداد پنجابیوں کی تھی مئی میں گوادر سے ملحقہ علاقے میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے 7 مزدوروں کو ہلاک کیا گیا پنجابیوں کے لیے تو ملک بھر باالخصوص بلوچستان میں خوف کے سائے ہیں ( جعفر ایکسپریس کا واقعہ بھی اپنی نوعیت کا واحد واقعہ تھا جن میں درجنوں افراد جان سے گئے) پولیس کے انسپکٹر جنرل آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل نیشنل کاونٹر ٹیررازم میں بطور ڈائریکٹر جنرل خدمات انجام دینے والے احسان غنی نے کہا تھا حکومتوں کو ابھی تک یہی علم نہیں کہ بلوچستان کا مسلہ کیا ہے کیا وہاں شناخت کا مسلہ ہے؟ کیا انہیں ڈر ہے کہ ان کی شناخت ختم ہو جائے گی ان کے مطابق بلوچستان اور سندھ کی شدت پسند تنظیموں اور ملک دشمن عناصر کے ٹھکانے کچے کے علاقے میں بھی قائم ہیں پاکستانی تھینک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فور کنفلکیٹ اینڈ پیس اسٹڈیز کے مطابق گذشتہ ایک برس کے دوران کم از کم 170 حملوں میں 150 عام شہری ( پنجابی) اور 114 سیکیورٹی اہلکاروں نے جان شہادت نوش کیا بلوچستان میں وحشت ناک صورتحالریاستی طور پر فوری سائنٹیفک جامع مربوط اور موثر حکمت عملی اور ان بزدل ملک دشمن کٹھ پتلیوں کے خلاف آپریشن وقت کا تقاضا ہے آج پورا پنجاب نہ صرف سوگ میں ہے بلکہ وہ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ کیا وہ اپنے ہی ملک میں اتنے غیر محفوظ ہیں کہ انہیں بسوں سے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد دھکے دیے کر نیچے اتارنے کے بعد گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے گا۔