سیاست کا میدان بھی انوکھا میدان ہے۔ جس میدان میں سیاست دان اپنے داؤ پیچ بڑی چالاکی سے چلا رہا ہوتا ہے اس میدان کو نہ صرف چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے بلکہ اس میدان کے ساتھ ساتھ ملک چھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی مثال سب کے سامنے ہے۔ 19 سال سے بنگلہ دیش پر حکو مت کرنے والی حسینہ برا وقت آنے ایسے چور دروازے سے بھاگی کہ عام بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ حکمران جو اپنے ملک کے خیر خواہی کے ایسے دعوے کرتے تھے جیسے ان سے بڑھ کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والے کوئی ہے ہی نہیں مگر برا وقت شروع ہوا نہیں وہ پہلے دن ہی ملک سے بھاگ کر دوسرے ملک میں پناہ لے لیتے ہیں۔
انسانی زندگی کا سب نازک اور اہم دور نوجوانی کا ہوتا ہے۔یہ وہ دور ہے کہ جب اعضا ء قوی، ہمت بلند اور ولولہ جوش ماررہا ہوتا ہے۔ذہنی صلاحیت بھی عروج پر ہوتی ہے۔نوجوان اگر کسی نظریے کو مقصد حیات بنا لیں اور اس پر کوئی دھن سوار ہوجائے تو پھر کوئی رکاوٹ ان کو نہیں روک سکتی۔طلبہ تحریک کا حکومت بنانے اور گرانے میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ جب طلبہ تحریک شروع ہوتی ہیں تو یہ بڑ ے سے بڑے پہاڑ اور سمندر کو آسانی سے عبور کرجاتی ہیں۔
بنگلہ دیش میں آخر کار فوج کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا اور شیخ حسینہ واجد کے طویل اقتدار کو ختم کردیا۔ شیخ حسینہ واجد 19 سالہ اقتدار کے نتیجے میں ملک کی طویل ترین وزیراعظم رہیں۔ وہ اسی سال چوتھی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں جب کہ حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کے خلاف اقدامات کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں اور حال ہی میں ان کی حکومت نے بنگلادیشی جماعت اسلامی پر پابندی لگائی تھی۔جبکہ اس سے پہلے اسی بنگلہ دیشی حکومت نے جماعت اسلامی کے تقریباً 6 افراد کو پھانسی کے گھاٹ چڑھایا۔
1971 کی جنگ لڑنے والوں کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ دیے جانے کے خلاف گزشتہ ماہ کئی روز تک مظاہرے ہوئے تھے جن میں 200 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم کو ختم کردیا تھا مگر طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف نا ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے تھی۔بنگلادیش میں کوٹہ سسٹم مخالف طلبہ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد پرتشدد احتجاج میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 300 تک جا پہنچی ہے جب کہ طلبہ نے دارالحکومت ڈھاکا کی طرف لانگ مارچ کی کال دی تھی۔
بنگلادیشی فوج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کے لیے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی تھی جبکہ شیخ حسینہ واجد مستعفی ہونے سے پہلے تقریر ریکارڈ کرانا چاہتی تھیں مگر نوجوانوں نے وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ کا اعلان کردیا جس کی وجہ سے شیخ حسینہ کو تقریر ریکارڈ کرانے کاموقع تک نہ ملا اور انہیں ملک سے فرار ہونا ہی مناسب لگا۔
آرمی چیف نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں امن واپس لائیں گے، شیخ حسینہ واجد نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اب عبوری حکومت کے قیام کیلیے بات چیت جاری ہے اور اس حوالے سے عوامی لیگ کے سوا تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کرفیو یا ایمرجنسی کی کوئی ضرورت نہیں، صدر سے جلد ملاقات کرکے عبوری حکومت کے قیام پر بات کرونگا اور امید ہے آج رات تک مسائل کا حل تلاش کرلیں گے۔
شیخ حسینہ واجد کے استعفے کی خبر سنتے ہیں دارالحکومت ڈھاکا میں بڑی تعداد میں طلبہ نے جشن منایا۔میڈیا کے مطابق بنگلادیش میں اس وقت 4 لاکھ افراد سڑکوں پر موجود ہیں۔مظاہرین شیخ حسینہ کی سرکاری رہائش گاہ میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ بھی کی جب کہ مظاہرین سامان بھی اٹھاکر لے گئے۔شیخ مجیب کے مجسمے کو بھی کرین کے ذریعے گرا دیاگیا۔ ذرائع کے مطابق شیخ حسینہ واجد بھارتی شہر اگرتلہ پہنچی ہیں اور بھارت انہیں محفوظ راستہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔حسینہ واجد بھارت سے لندن جائیں گی۔کچھ ذرائع یہ بھی بتار ہے ہیں کہ امریکہ نے شیخ حسینہ کا ویزہ کینسل کردیا اور بھارت بھی ان کو مستقل پناہ دینے سے گریز کررہا ہے۔
اس کو کہتے ہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جو لوگ اقتدار کے نشے میں اپنے آپ خدا بن بیٹھتے ہیں اور اپنے مخالفین کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اللہ کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں اس وقت وہ ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں مگر جیسے ہی اقتدار کی کشتی ہچکولے لیتی ہے وہ اسی ملک سے فرار ہونا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔